سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔ ۔ ۔ آٹھویں قسط
تحریر: شاہد نذیر چودھری
عمران خان اور جاوید میاں داد کے علاوہ کسی بھی کھلاڑی نے اس سے پہلے ویسٹ انڈیز کا دورہ نہیں کیا تھا۔وسیم اکرم کے حق میں یہ دورہ سودمند ثابت ہوا۔عمران خان نے اسے دباؤ میں کھیلنے کی خاص تربیت دی۔بدقسمتی سے پاکستان ایک بھی ایک روزہ میچ نہ جیت سکا اور ویسٹ انڈیز نے ون ڈے سیریز پانچ صفر سے جیت لی البتہ ٹیسٹ میچوں میں پاکستان اپنی برتری قائم کرنے کی پوزیشن میں آگیا تھا۔وسیم اکرم، عمران خان اور قادر کی ٹرائیکا پاکستان کا گرتا ہوا مورال پھر سے بلند کر دیا۔
اسی سال کے آخر میں ورلڈسیریز میں شرکت کے لئے آسٹریلیا نے پاکستان کو بری طرح شکست سے دو چار کیا۔البتہ وسیم اکرم عمران کی ہدایات کی روشنی میں بہترین پرفارمنس دیتا رہا۔مگر1989ء کے شروع میں جب پاکستان نیوزی لینڈ کے دورے پر گیا تو وسیم اکرم کی بدقسمتی کا دروازہ ایک بار پھر کھل گیا۔ایک میچ کے دوران فیلڈنگ کرتے ہوئے اس کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تو اسے فوراً ہسپتال لے جایا گیا اور پھر واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ یہاں اس نے علاج کرایا مگر فریکچر ٹھیک ہوتے ہی اس کی ران کا درج پھر سے جاگ اٹھا اور ڈاکٹروں نے اسے آٹھ مہینے تک مکمل آرام کرنے کی ہدایت کی۔
نانی کی فرمائش
کسی نئے اور نوجوان آل راؤنڈر کے لئے زیادہ عرصہ تک کرکٹ سے دور رہنا وبال جان بن جاتا ہے۔اسے اپنا کیرئیر ختم ہوتا ہوا لگتا ہے۔یہی وسیم اکرم کے ساتھ ہوا۔وہ ان دنوں اپنے ماڈل ٹاؤن والے گھر میں قید ہو کررہ گیا تھا۔ اس نے ایک طرح سے کرکٹ مکمل طور پر چھوڑ دی تھی اور ایک عرصہ بعد وہ گھر والوں کی اداسیاں دور کرنے لگ گیا۔اس کی نانی، والدہ اور بہن نے سوچا کہ وسیم آٹھ مہینے تک گھر میں رہے گا تو کیوں نہ اس کی شادی کر دی جائے۔گھر میں اس کی شادی کا ذکر ہونے لگا تو اخبارات تک خبر پہنچ گئی۔ اور اس کی شادی کے ہر سوچرچے ہونے لگے۔وسیم اکرم کے مداحوں نے اسے فون کرنے شروع کر دیئے۔روزانہ ایک سو کے قریب فون اور اس کے علاوہ سینکڑوں خطوط آنے لگے۔صوفیہ بھائی کی ڈاک کھولتی اور فون سنتی رہتی اور بھائی کی پیغام رساں اور مترجم کے فرائض ادا کرتی رہی۔وسیم اکرم نے گھر والوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ فی الحال شادی نہیں کرے گا۔اس کی نانی اماں نے سنا تو وہ اس کے کان کھینچنے کے لئے ماڈل ٹاؤن پہنچ گئیں اور کہا:
ساتویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں۔
’’وسیم بیٹے!تو اپنی نانی کی خواہش پوری نہیں کرے گا کیا؟ میں چاہتی ہوں اپنی زندگی میں ہی تیرے سرپر سہرے دیکھ لوں۔میں تو گھڑی دو گھڑی کی مہمان ہوں‘‘۔
مگر وسیم نے اپنی نانی کو دو ٹوک کہہ دیا’’نانی اماں! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔مگر میں 23سال کی عمر میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔میرا کیرئیر تباہ ہو جائے گا لہٰذا آپ لوگ مجھ پر دباؤ نہ ڈالیں‘‘۔لہٰذا نانی اماں نے اس کے مستقبل کی خاطر چپ سادھ لی اور اس کی ماں اور بہن کو بھی کہہ دیا کہ ابھی اس پر زور نہ دیں۔
انہی دنوں کی بات ہے وسیم اکرم ڈاکٹر کے پاس گیا ہوا تھا۔ جب کسی بڑی گھرانے کی لڑکی ان کے گھر آگئی،اس نے اپنے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھام رکھی تھی۔وہ صوفیہ سے ملی اور اسے انگوٹھی تھماتے ہوئے کہنے لگی:
’’میں وسیم سے شادی کرنا چاہتی ہوں،لہٰذا یہ منگنی کی انگوٹھی اس کو پہنا دیں۔‘‘
صوفیہ اور گھر کے دوسرے افراد اس بے باک لڑکی کی بات سن کر حیران ہو گئے۔وسیم کی والدہ نے خاصی سخت زبان استعمال کرکے اسے گھر سے باہر جانے کے لئے کہا مگر وہ لڑکی دھرنا مار کر ان کے لان میں بیٹھ گئی اور بولی:
’’آپ جو مرضی کرلیں میں وسیم کو انگوٹھی پہنائے بغیر واپس نہیں جاؤں گی‘‘۔
گھروالے اب حیران و پریشان تھے کہ کیا کریں۔وہ لڑکی کی ظاہری حیثیت کی وجہ سے بھی مرعوب ہو گئے۔اس کی بیش قیمت نئی کار ان کے چھوٹے سے پورچ میں کھڑی تھی اور اب وہ خود لان میں بچھی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔گھر والوں نے اس کی منت سماجت بھی کی مگرو ہ لڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی اور اس نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا:’’میں نے کہہ دیا ہے جب تک وسیم آنہیں جاتا میں نہیں جاؤں گی لہٰذا آپ کی یہ التجائیں وغیرہ سب فضول ہیں‘‘۔
سہ پہر ہو رہی تھی۔ موسم نم آلود اور ہوا میں قدرے خنکی بڑھ گئی تھی وہ لڑکی بدستور لان ہی میں بیٹھی رہی جب کہ گھر والے اسے اس کے حال پر چھوڑ کے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
اک لڑکی دیوانی سی
یہ اتفاق ہی تھا کہ اس شام وسیم اکرم خلاف معمول وقت سے پہلے گھر آگیا۔پورچ میں ایک نئی نویلی کار کو دیکھ کر اس نے سوچا شاید اس کے والد کے کوئی دوست ان سے ملنے آئے ہیں۔کار سے اترتے ہوئے اس نے سرسری انداز میں لان میں بیٹھی ہوئی لڑکی کی طرف بھی دیکھا تھا اور پھر کار کی ڈکی کھول کر اپنی کٹ باہر نکال کرک اندر جانے لگا۔ اسی اثناء میں وہ لڑکی وسیم اکرم کے پاس آگئی اور آتے ہی بے باکی سے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھادیا۔
وسیم اکرم نے حیرانی کے ساتھ اس کی طرف دیکھا ’’میں نے آپ کو پہچانا نہیں‘‘؟اس نے لڑکی کے ہاتھ کو نظر اندازکرتے ہوئے پوچھا۔
لڑکی نے اپنا نام بتایا اور بولی’’میں آپ کی پرستار ہوں۔آپ سے کچھ باتیں کرنے آئی ہوں۔‘‘
وسیم اکرم کے لئے یہ پہلا اتفاق تھا کہ کوئی لڑکی اس کے گھر میں اسے ملنے آئی تھی لہٰذا اسے اس کی آمد ناگوارگزری ۔اس نے پوچھا:
’’آپ اکیلی لان میں بیٹھی ہیں۔کیا ہمارے گھر والوں کو معلوم نہیں ہے کہ آپ یہاں آئی ہوئی ہیں‘‘۔
’’سب کو خبر ہے‘‘۔لڑکی مسکرائی۔’’مگر وہ مجھے اکیلا چھوڑ کراندر چلے گئے ہیں۔حالانکہ گھر آئے ہوئے مہمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہئے تھا‘‘۔
’’یہ کار آپ کی ہے‘‘؟وسیم نے پوچھا۔
’’جی میری ہی ہے۔میں دو تین گھنٹے سے آپ کا انتظار کررہی ہوں‘‘
(جاری ہے،اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے)۔