شمالی کوریا اور امریکہ کا تنازع سفارتی چینل کے ذریعے حل ہوگا

شمالی کوریا اور امریکہ کا تنازع سفارتی چینل کے ذریعے حل ہوگا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن (اظہر زمان، تجزیاتی رپورٹ) کیا ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے اورمہلک میزائلوں کی تیاری کے سلسلے میں شمالی کوریا کی کوششوں کی وجہ سے اس کا امریکہ کے ساتھ جنگی تصادم ہو جائے گا یا یہ مسئلہ مذاکرات کی میز پر حل ہو جائے گا؟ اس ’’ملین ڈالر‘‘ سوال پر واشنگٹن کے سکیورٹی اور سیاسی حلقے منقسم نظر آتے ہیں۔ اس مبصر کی نظر میں ان ماہرین کی رائے میں زیادہ وزن نظر آتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے بعض اہم ارکان اور شمالی کوریا کی قیادت کی طرف سے ایک دوسرے پر سخت لفظی حملوں کے باوجود اپنی اپنی ضرورتوں یا بین الاقوامی دباؤ کے تحت دونوں فریق بالآخر مسئلے کے سفارتی حل کی راہ اختیار کریں گے۔اس مبصر کے پاس بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی اپنی شعلہ بیانی کے باوجود اولین ترجیح سفارتی حل ہی ہے اور اس نے درپردہ شمالی کوریا کے ساتھ ایک بالواسطہ خاموش ڈپلومیٹک چینل کھول رکھا ہے جبکہ اس عمل میں امریکہ چین اور روس کی مدد لے رہا ہے تاہم یہ دونوں ممالک ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش کے مطابق معاملات کو آگے نہیں بڑھا رہے اور امریکہ کو خاص طور پر اس سلسلے میں روس سے شکایت ہے۔ اگرچہ اس خطے میں موجود اہم سٹیک ہولڈرز چین اور روس کے اپنے مفاد میں بھی یہی ہے کہ وہاں کوئی نیا جنگی تصادم نہ ہو اور معاملات افہام و تفہیم سے حل ہو جائیں لیکن علاقائی سیاست میں ان اہم عالمی طاقتوں کے الگ الگ مفادات بھی ہیں جو امریکہ سے متصادم بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بناء پر چین اور روس امریکہ کی سفارتی کوششوں کا ساتھ بھی دے رہے ہیں لیکن اس عمل کی رفتار کا تعین وہ دوسرے معاملات میں امریکہ کی طرف سے لچک دکھانے سے وابستہ کر رہے ہیں۔ چین تجارتی شعبے میں سہولتوں کے علاوہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ بحری حدود میں چین کی تجاوزات کو نظر انداز کرے۔ اس تعاون کے بدلے میں روس کی امریکہ سے یہ توقع ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ اور خصوصاً شام کے معاملے میں اسے زیادہ مطابقت پیدا کرکے چلے۔ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اس وقت شمالی کوریا کے حوالے سے بظاہر متضاد پالیسیوں کا اظہار ہو رہا ہے۔ ان کا اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تضاد نہیں ہے۔ دراصل شمالی کوریا کو دھمکی دینے والی ایک ’’پبلک پالیسی‘‘ ہے اور دوسری مذاکرات کرنے کی ’’ڈپلومیٹک پالیسی‘‘ ہے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا نام بتائے بغیر میڈیا میں ایک تازہ بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے واضح کہا ہے کہ جب تک شمالی کوریا اپنا رویہ بہتر نہیں کرتا، اس کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس اہلکار نے واضح کیا ہے کہ شمالی کوریا کے حالیہ میزائل تجربات کے پیش نظر اس کے ساتھ مذاکرات کیلئے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ اس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ وہ پوری ٹرمپ انتظامیہ کے اس موقف کی ترجمانی کر رہے ہیں کہ جب تک پیانگ یانگ حکومت اپنے رویے میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتی، اس کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوسکتی۔دراصل امریکی میڈیا کو ٹرمپ انتظامیہ کا یہ موقف جانچنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ شمالی کوریا کی جارحیت سے نمٹنے کیلئے تمام راستے کھلے ہیں۔ جاپان کی طرف سے شمالی کوریا کے جوہری پھیلاؤ سے متعلق بلائے جانے والے اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ ہم شمالی کوریاکے ساتھ جنگ نہیں چاہتے لیکن اپنے دفاع کیلئے تمام راستے کھلے ہیں۔ تاہم اس مبصر کی نظر میں اس وقت امریکہ کی طرف سے جو سب سے بڑا راستہ کھلا ہے وہ سفارتی راستہ ہے جس پر وہ خاموشی سے گامزن ہے۔
اظہر زمان

مزید :

علاقائی -