گزارشِ احوالِ واقعی:ایک پبلک سروس کالم(آخری قسط)

گزارشِ احوالِ واقعی:ایک پبلک سروس کالم(آخری قسط)
گزارشِ احوالِ واقعی:ایک پبلک سروس کالم(آخری قسط)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے گرنے کی ایک وجہ تو وہی تھی جو عالمِ اسباب میں علت اور معلول کے نام سے جانی جاتی ہے یعنی میں جلدی میں تھا، کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی، قالین پر پڑی ایک کیبل میں پاؤں اٹکا اور گرگیا۔
اس قسم کی گراوٹیں (Falls) ویسے عام سی بات ہے، کولہے کی ہڈی ٹوٹ جانا بھی کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ یہ ٹوٹتی رہتی ہیں، لوگ گرتے رہتے ہیں، آپریشن ہوتے رہتے ہیں اور صحت یاب ہونے میں طویل دورانیئے بھی کوئی نئی بات نہیں۔

گوگل پر جاکر دیکھیں تو ان گراوٹوں کی تفصیل چشم کشا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ہر سال جو لوگ کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھتے ہیں ان میں زیادہ تر کی عمریں 75اور 90برس کے درمیان ہوتی ہیں اور ان میں سے اکثریت شراب کے نشے میں مدہوشی کے عالم میں گرنے والوں کی ہوتی ہے۔ نہ صرف وہاں آبادی کی اکثریت شراب نوشی کرتی ہے بلکہ قومی سطح پر ان کا جسمانی وزن بھی زیادہ ہوتا ہے۔

صرف برطانیہ میں ہر سال 65000 لوگ(زیادہ تر کرسمس کے ایام میں) لڑکھڑاتے ہوئے گرجاتے اور کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھتے ہیں۔ ان میں 30 فی صد مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوسکتے اور گویا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیں۔ وہاں ایک آپریشن پر اوسطاً 11لاکھ روپے کے اخراجات اٹھتے ہیں!
مغربی ملکوں میں اس مرض کی کثرت نے اس کے علاج معالجے کی سہولتوں میں بھی کثرت پیدا کردی ہے۔ جدید ترین ادویات اور آلاتِ جراحی اور مریض کو آناً فاناً اس مرض کے علاج کے لئے مختص ہسپتالوں میں منتقل کرنے کی آسانیوں نے شرحِ اموات کو ایک حد تک کم کردیا ہے۔ پھر بھی 30فی صد اموات ایک ہولناک حقیقت ہیں۔۔۔۔ حضرت اقبال نے سچ کہا تھا کہ دورِ حاضر کی مشکل یہ نہیں ہے کہ اس نے زیادہ بہتر ڈاکٹر پیدا کردئے ہیں بلکہ مشکل یہ ہے کہ عصرِ موجود کا بیمار، بیمار تر ہوگیا ہے:
مشکلے نیست کہ اعجازِ مسیحا داری
مشکل آن است کہ بیمارِ تو بیمار تراست
کولہے کی ہڈی اورگھٹنے کے آپریشن چونکہ مغرب میں عام ہیں اس لئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں سے جو ڈاکٹر اس شعبے کی سرجری کی ٹریننگ کے لئے وہاں جاتے ہیں، ان کووہاں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریقۂ جراحی، جنرل سرجری سے کس طرح اور کتنا مختلف اور مشکل ہے۔ وہاں سے واپس آکر جو ڈاکٹر صاحبان پاکستان کے کسی بڑے ہسپتال میں تعینات کئے جاتے ہیں، ان کو وہ سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں جو مغربی ممالک میں اس نوع کی سرجری کے لئے مخصوص شفا خانوں میں عام میسر ہوتی ہیں۔۔۔۔ اس مشکل کا حل آسان نہیں۔۔۔۔ یا تو کوئی مخیر پاکستانی، شوکت خانم کی طرز کا ہسپتال قائم کردے یا پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں حکومت کی طرف سے ان مخصوص طرح کے شفا خانوں کی تعمیر کردی جائے۔

اگر ایسا ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ اس مرض کی وجہ سے پاکستان میں جو اموات ہوتی ہیں، ان کی تعداد بہت حد تک کم ہو جائے گی اور مریض ایک طویل درد و کرب سے بھی چھٹکارا پا جائیں گے۔۔۔۔ میرا آپریشن جس ہسپتال میں ہوا اس کا ایک اوٹی (آپریشن تھیٹر) اس کولہے کی ہڈی کے تڑخ جانے کے آپریشن کے لئے بطورِ خاص ڈیزائن اور کنسٹرکٹ کیا گیا ہے(ظاہر ہے اس کے لئے معاون طبی عملہ بھی سپیشل طرح کا ہوگا)۔
پاکستان میں کولہے کی ہڈی کے ٹوٹنے کی وجہ زیادہ تر واش روم میں پھسل کر گرنے سے عبارت ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ تقریباً 85,80 فی صد مریض واش روم سے پھسل کر اس عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آجکل جدید گھروں میں واش روموں کا فرش اینٹی سلپ(Anti- Slip) ٹائیلوں سے تعمیر کیا جارہا ہے لیکن پرانے گھروں میں یہ ٹائلیں نہیں۔

میرے اپنے گھر کے غسل خانوں میں یہی پرانے چپس(Chips) کے فرش تھے جو لاکھ دھونے اور روزانہ واش کرنے کے باوجود پھسلواں رہتے تھے۔ حال ہی میں، میں نے چاروں واش روموں میں Anti-Slip ٹائلوں کا فرش لگوایا لیکن وہ جو میں نے اس کالم کے شروع میں لکھا، اسی طرح کی امراض کے علت اور معلول کا ایک روپ تھوڑا ہی ہوتاہے۔

اس کے کئی روپ ہیں۔ میری گراوٹ (Fall) جس علت سے ہوئی، وہ ایک سراسر ذاتی اور وجدانی تجربہ تھا۔۔۔۔ بعض قارئین بے شک اس سے اتفاق نہ کریں لیکن میرا ایمان ہے کہ مجھے جو یہ حادثہ پیش آیا اس کا سبب مادی، جسمانی یا بدنی نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق ’’روحانیات‘‘ سے تھا! روحانیات صرف پیروں فقیروں کی جاگیر نہیں ہوتی بلکہ اس کا تعلق میرے جیسے عام گنہ گار انسان سے بھی ہوتا ہے جو نیم پیروں فقیروں کو کم کم مانتا ہے۔
21نومبر 2018ء یومِ ولادتِ ختم المرسلینﷺ تھا۔ میں نے ناشتہ کرنے کے بعد ایک ٹی وی چینل آن کیا تو اس وقت سکرین پر ایک 15سالہ لڑکا نعتِ رسولؐ پڑھ رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا یہ کسی دینی مدرسے کا طالب علم ہے۔

نہ تو اس کی آواز میں کوئی غنائیت تھی، نہ کوئی طرز تھی اور نہ کوئی صدائی زیر وبم ایسا تھا جو توجہ کھینچتا۔۔۔ میں نے ریموٹ کا بٹن دبایا اور دوسرا چینل آن کیا۔ وہاں بھی ایک باریش نوجوان ترنم کے ساتھ نعت خوانی کررہا تھا۔ لیکن میں نے ذہن میں محسوس کیا کہ یہ شخص اتنی بے سُری طرز سے حضورؐ کی نعت کیوں پڑھ رہا ہے۔۔۔۔ میں نے ایک اور بٹن دبا کر ٹی وی آف کردیا۔
اس کے بعد 12بجے پھر ایک تیسرا چینل آن کیا۔ سکرین پر تین چار لڑکیاں فل میک اپ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ چہرے کے علاوہ سرو گردن، سفید حجاب میں ملفوف تھے۔ یہ تمام لڑکیاں ایک کورس کی شکل میں ایک نعت پڑھ رہی تھیں۔ لیکن ایک تو شائد ان کی ریہرسل نامکمل تھی اور دوسرے آواز میں بھی کوئی ایسی موسیقیت نہیں تھی جو دامنِ گوش کھینچتی۔۔۔۔ اس کے بعد ایک اور چینل آن کیا۔

اس میں ایک صاحب آنحصورؐ کی سادگی کے قصے بیان کررہے تھے۔ جن واقعات کو سنوایا جارہا تھا ان کا تذکرہ میں نے کسی بھی سیرت پاکؐ کی کتاب میں نہیں پڑھا تھا۔ حیران تھا کہ یہ صاحب کہاں سے یہ سب داستانیں نکال کر لے آئے ہیں۔
میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ میں نے دل میں سوچا یہ کیسی عید میلاد النبیؐ منائی جارہی ہے۔ ان نجی چینلوں کی بھرمار سے پہلے صرف ایک PTVپر یہ یومِسعید ایک خاص عقیدت سے منایا جاتا تھا۔

نعت گو حضرات و خواتین کی آوازیں دلوں میں کھب جاتی تھیں، و اعظانِ کرام کے آئنۂ گفتار میں سیرتِ رسولؐ کے ایسے ایسے گوشے بے نقاب کئے جاتے تھے کہ ان کو سن کر قلب و ذہن پر ایک خاص وجد کا عالم طاری ہو جاتا تھا۔۔۔۔ کس کس نعت گو کا نام لوں۔۔۔ ہماری آج کی نسل اس دور کے جشنِ میلاد کا تصور ہی نہیں کرسکتی۔۔۔ دل کے کسی گوشے سے یہ سوچ بھی ابھری کہ ان لوگوں کو اگر نعت پڑھنی نہیں آتی یا ترنم کے زیر وبم سے آگہی نہیں تو یہ لوگ ٹی وی پر آکر اپنا وقت کیوں ضائع کرتے اور سامعین و ناظرین کو کیوں بور کرتے ہیں۔
میں اپنے علم و فضل پر بھی اترانے لگا۔۔۔۔اقبال کی فارسی زبان کی نعتیں بالخصوص یاد آنے لگیں۔

عصرِ حاضر کے کئی حفیظ تائب یاد آئے اور عصرِ ماضی کے کئی نامور نعت گو حضرات بھی ذہن کی سکرین پر تیرنے لگے۔ غالب کا وہ مصرعہ یاد آیا جو ہزار ہا دواوینِ نعت گوئی سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ سے زیادہ ایجاز کس مصرعے میں ہوسکتا ہے؟۔۔۔ پھر مجھے اقبال کی وہ طویل فارسی نعت یاد آئی جو اپریل 1936ء میں سرسید احمد خان کو خواب میں دیکھ کر اقبال نے کہی تھی۔ سرسید نے اقبال کو خواب میں آکر کہا تھا کہ اپنے عوارضِ جسمانی کے بارے میں حضورِ رسالت مآب میں عرض کریں۔
قارئین کرام! میں حد درجہ گنہ گار اس عجز کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں اقبال کی یہ نعت جب جب پڑھتا ہوں اس کے 10,8اشعارتو ایسے ہیں کہ ان کو اونچی آواز سے نہیں پڑھ سکتا۔ گلا رندھ جاتا ہے اور آنسووں کی بارش ہونے لگتی ہے۔۔۔ یہ خودستائی ہی سہی لیکن آج اس کی بھی اجازت دیجئے۔۔۔ میں نے اس قسم کے خیالات ذہن میں لاکر 21نومبر کو جب تین چار بار مختلف چینل آن کئے تو ان پر ہونے والے مباحث اور پڑھی جانے والی نعتوں سے ایک قسم کی بیزاری سی ہونے لگی۔

میں سوچنے لگا کہ ایسی نعت گوئی اور ایسی سیرتِ ختم المرسلین کو ایسے پیرائے میں بیان کرنا کہاں کی عیدِ میلاد ہے؟۔۔۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ کسی نادیدہ قوت نے اچانک زمین پر دے پٹخا اور مجھے اپنے گھمنڈکی سزا مل گئی۔
آج سوچتا ہوں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ قصہ یاد آتا ہے جس میں ایک گڈریا اپنی بے سُری آواز میں اونچی اونچی لے میں خدا کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا اے خدا اگر تو مجھے مل جائے تو میں تمہارے کپڑے دھوکر تمہیں نہلاوں، سرکی جوئیں صاف کروں اور سر میں تیل لگاؤں وغیرہ۔۔۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سنا تو اس کو جھڑک دیا کہ کیا خدا کی بھی جوئیں نکالو گے اور اس کو نہلاؤ گے؟۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا کی طرف سے شدید سرزنش کی گئی۔ مولانا روم نے اس واقعہ کو بیان کرکے خدا کی ’جھڑک‘ کو اس پیرائے میں ختم کیا ہے:
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
میں اپنی اس غلطی پر خدائے رحیم و کریم سے سو بار معافی مانگتا ہوں کہ حضورؐ کی نعت جس پیرائے میں بھی پڑھی جائے، وہ ایک کامل و اکمل اظہار ہے۔ اس پر اُف تک نہ کی جائے۔ ہر نعت گو اعظم چشتی نہیں بن سکتا اور ہر شارحِ سیرت، مولانا مودودی نہیں ہوتا!
نوٹ:ڈاکٹر عامر خان کا فون نمبر 0308-2761962 اور ای میل ایڈریس ’’عامر ڈاٹ خان ایٹ الرازی ہیلتھ کیئر ڈاٹ کام‘‘ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -