1998 میں اختر مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان تھے اور جب نوازشریف نے چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کیے تو اختر مینگل نے اعتماد میں نہ لینے کا شکوہ کیا لیکن اس کے بعد نوازشریف نے ان کو کیا سزا دی ؟ سینئر صحافی نے ایسا انکشاف کر دیا کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی حامد میر نے آج ” پنجرہ ‘ ‘ کے نام سے کالم شائع کیا جا ہے جس میں انہوں نے 1998 میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا احوال بیان کیا ہے جس کا مرکزی کردار اختر مینگل اور نوازشریف رہے ۔
حامد میر نے اپنے کالم میں لکھاجس میں انہوں نے بتایا کہ 1998ءمیں پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کیا تو بلوچستان کے وزیراعلیٰ اختر مینگل کو ان دھماکوں سے بے خبر رکھا گیا۔ اس موقع پر اختر مینگل نے یہ شکوہ کیا کہ جس صوبے کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا اس صوبے کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینا کیوں ضروری نہ سمجھا گیا؟ بجائے کہ یہ شکوہ پیار محبت سے دور کیا جاتا وزیر اعظم نواز شریف نے اختر مینگل کو گستاخی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا اور پیغام بھجوایا کہ وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دو ورنہ تمہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ہٹا دیا جائے گا۔ اختر مینگل نے بمشکل ڈیڑھ سال بھی وزارت اعلیٰ میں پورا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے جوڑ توڑ کے ذریعہ حکومت بچانے کی بجائے حکومت چھوڑ دی۔
اختر مینگل کے والد سردار عطاءاللہ مینگل بھی 1972ءمیں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔یہ وہ حکومت تھی جس نے آتے ہی اردو کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا لیکن صرف نو ماہ کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سردار عطاءاللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو بلوچستان کی سرکاری زبان بنانے والی جماعت نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) پر پابندی لگا دی۔ نیپ پر پابندی نہ لگتی تو یہ آج بھی ایک وفاقی جماعت ہوتی لیکن ایک وفاقی جماعت کو ختم کرنے کی کوشش میں بہت سی علاقائی اور صوبائی جماعتیں پیدا کر دی گئیں۔آج اس کالعدم نیپ کا ایک حصہ بی این پی (مینگل) ہے، ایک حصہ اے این پی ہے، ایک حصہ نیشنل پارٹی ہے، کچھ لوگوں نے سوشلسٹ پارٹی بنالی، کوئی عوامی ورکرز پارٹی میں ہیں، کوئی علیحدگی پسند بن گیا کوئی عسکریت پسند بن گیا۔وفاق کو کمزور کرنے کی ذمہ داری صرف کسی ایک ڈکٹیٹر یا ایک سیاست دان پر عائد نہیں ہوتی۔