دہری شہریت نے میرے ہاتھ باندھ دئیے ہیں 

دہری شہریت نے میرے ہاتھ باندھ دئیے ہیں 
دہری شہریت نے میرے ہاتھ باندھ دئیے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دہری شہریت ایک ایسی صدا جو ہر طرف سے آرہی ہے۔ جس کی باس مجھے اجنبی اور جس کا ذائقہ میرے اندر ایک ایسی تلخی گھول رہا ہے کہ میں اس بیگانگی میں خود کو کہیں کا نہیں پاتا۔ میری زندگی میں بھی ایک موڑ آیا تھا جب میں تعلیمی اداروں میں باہر کے گریجویٹ اپنے اساتذہ اور معلمین دیکھتا تھا تو میرے دل میں بھی خواہش اٹھتی تھی کہ میں بھی اپنے سینے کو اس علم کی شمع سے روشن کروں جس کے لئے میرے نبی پاک ﷺ نے چین کے سفر پر بھی زور دیا ہے۔ میرے شعبہ طب میں ایک وقت تھا کہ سب پروفیسر صاحبان باہر کے تعلیم یافتہ تھے اور میں ان کا طالبِ علم تھا ۔آج کے فیلوز آف کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز پاکستان انہی کے لگائے وہ پودے ہیں جو گلشن کو مہکا رہے ہیں۔ ہم ڈاکٹرز جب باہر جاتے ہیں تو تعلیمی اور عملی زندگی کے رموز پا لینے کے لئے ہمیں برسوں کی جدوجہد سے گذرنا پڑتا ہے ۔جس کے دوران زندگی ایک ایسے رستے پہ چلتی ہے کہ اردگرد کی خبر نہیں رہتی اور اس دوران ہمارے بچے بھی شاید پہلی ترجیح نہیں رہتے ،وہ چونکہ ان ممالک میں پیدا ہوتے ہیں تو ان کا برتھ سرٹیفیکیٹ بھی وہیں کا ہوتا ہے اور ان کی شہریت بھی انہی ممالک کی ہوتی ہے۔ ان کی درسگاہیں بھی وہیں اور ان کے دوست بھی وہیں کے ہوتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ اور بچے ایک وقت پہ صبح اپنے اپنے علمی سفر پہ روانہ ہوتے ہیں اور شام کو کھانے کی میز پہ ملتے ہیں۔ مجھے تو اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ کی یا د ستاتی ہے لیکن ان کا سب کچھ وہیں ہوتا ہے۔ کئی سال وہیں گذارنے کے بعد ان ممالک کی شہریت کے اہل ہوتے ہیں تو سکون ہوتا ہے کہ اب ہمیں ایک غیرملکی کے وہ ٹیکسز اور فیس نہیں دینی پڑے گی جس نے کمر دہری کی ہوئی ہوتی ہے ،دنیا کے ائرپورٹس پہ اترنا اور چڑھنا آسان ہو جاتا ہے ۔
میں نے اپنے بیرونِ ملک قیام کے دوران الحمد اللہ ملک کا نام روشن کیا ہے جس کے ثبوت میرے استاد صاحبان کے میرے بارے میں لکھے وہ ریفریسنز ہیں جو آج بھی میرا اثاثہ ہیں اور میرے پاس محفوظ ہیں جن میں میرے ملک اور میرے بارے میں ان کے الفاظ کسی بھی پاکستانی کے لئے باعثِ فخر ہیں ۔
جب یہ تعلیمی سفر ختم ہوتا ہے تو زندگی جوانی کی بہاریں گذار چکی ہوتی ہے اور والدین بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں ۔وطن کی مٹی اور اس کی خوشبو ایک پل چین نہیں لینے دیتی ،وہاں پہ بچوں اور والدین کے درمیان وہ بحث شروع ہوتی ہے کہ جس کو فیصلہ ایک کی قربانی ہوتی ہے ۔میرے کیس میں ، میں جیتا اور میرے بچوں نے میرے لئے اپنی درسگاہیں اور دوست قربان کئے ۔انہوں نے اپنے ملک کی سرزمیں کو خدا حافظ کہا جس سے ان کا پیدائشی تعلق تھا اور میرے ساتھ چل پڑے ۔مجھے وہاں پہ معاش اور رہنے کی کوئی تنگی نہ تھی لیکن اپنوں کی محبت اور وطن کی مٹی نے مجھے مجبور کر دیا تھا کہ میں اپنے بچوں سے قربانی مانگوں ۔اسی لئے تو ان حالات میں جب میری وفاداری پہ سوال اٹھتے ہیں تو کلیجہ کٹتا ہے ۔ان سالوں میں میں نے جو کمایا اپنے ملک لایا اور جائز طریقے سے لایا ،پر اپنے حاکموں کے محل جب بیرونِ ملک اور ان کی تعلیم و پرورش کے بعد ان کے پاکستانی بچے دیارِ غیر میں دیکھتا ہوں کہ جو کہتے ہیں کہ پاکستان میرا ملک نہیں ہے تو سوچتا ہوں وفا اور وفاداری کی تعلیم کس کی تھی ۔میری یا ان پاکستانی حاکموں کی؟ میں اپنے ملک میں دنیا کی اعلیٰ ترین ڈگری کے ساتھ اپنے قصبے میں خدمات انجام دیتاہوا محسوس کرتا ہوں کہ میں نے جو سیکھا وہ میں اپنے پاکستانی بچوں میں اس لئے بانٹ نہیں سکتا کہ میں دہری شہریت کا حامل ہوں میں سرکاری نوکری نہیں لے سکتا کیونکہ میرے پاس دوسرے ملک کا پاسپورٹ ہے تو صاحب میں پوچھتا ہوں کہ میرے ملک کے سبز پاسپورٹ کو بے توقیر کس نے کیا ؟میں نے یا ان پاکستانیوں نے جن کی وجہ سے ہم منی لانڈرنگ کرتے ملکوں ملکوں بدنام ہیں ۔کل میرے بچے اپنے اپنے ملک جائیں گے جہاں پہ ان کی بچپن کی جڑیں ہیں اور میں بڑھاپے میں ان سے ملنے کے لئے اگر جاؤں گا تو یہ ان ممالک کا پاسپورٹ میرے لئے ایک سہارا ہوگا کہ اپنے بچوں سے بھی نہ ملنے جا سکوں جو شاید بڑھاپے میں اعلیٰ تعلیم اور روز گار کے لئے ان ممالک کو واپس لوٹیں جہاں کے وہ پیدائشی ہیں ۔پڑھنے تو میں اس لئے گیا تھا کہ اپنے ملک کے بچوں کو پڑھاؤں کیونکہ میں نے اپنے بڑوں کو یہی کرتے دیکھا تھا لیکن یہاں تو مجبوریاں ہیں صاحب ۔میرے بچے ان غیرملکی سکولوں سے پڑھنے کے بعد آج میرے قصبے میں ٹاٹوں پہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔میرے ہم عصر بڑے بڑے شہروں میں لاکھوں فیس میں کماتے ہیں اور دہری شہریت والا میں چند سو کی فیس جو کہ میں اکثر کسی کی غربت دیکھ کے چھوڑ دیتا ہوں کہ میں دہری شہریت کا مارا ہوں اور میری محبت ووفاداری پہ شک ہے ،میں نے تو لوٹ کھسوٹ کے بعد وہ شہریت نہیں خریدی ۔میرے پاس تو پیسہ چھپانے کے لئے اقامے نہیں ،میں ملک سے فراڈ کرکے دوسرے ملک نہیں بھاگا ،میں تو واپس آیا ہوں اپنوں میں جن کو میری محبتوں پہ یقین نہیں ،میں تو وہ بچے ساتھ لایا ہوں جو پاکستان میں رہتے ہوئے خود کو پاکستانی کہتے ہیں ،پاکستان آئرلینڈ کے میچ ہوتے ہیں تو پاکستان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں۔ میرے بچے نہیں کہتے کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں انہیں ملکی قانون دہری شہریت رکھنے کی اجازت دیتا ہے ۔ اگر یہ ایسی ہی برائی ہے تو توڑ دیجیئے ان ممالک کے ساتھ اپنے معاہدے اور پابندی لگا دیجیئے کہ کوئی باہر نہ جائے، اسے تعلیم اور باعزت روز گار یہاں ہی ملے گا۔ میں بھی دہری شخصیت چھوڑ دوں کہ اگر مجھے یہ یقین دلایا جائے کہ کل اگر میں اپنے ان بچوں سے ملنے باہر جاؤں تو مجھے بڑھاپے میں ویزوں کے لئے دھکے کھانے پڑیں اور اگر نہیں تو میری بچوں کے ساتھ میری محبت قربانی کا تقاضا کرتی ہے کہ ملکی قانون کے مطابق اپنی دوہری شہریت رکھوں کہ جب وہ اپنے اپنے ملک لوٹیں تو میں ان سے ملنے جا سکوں۔ اس سہولت کو اپنے لئے برقرار رکھنے کی پاداش میں میں سزا تو اٹھا رہا ہوں کہ میں اس ملک اس مٹی کے لئے کچھ کر تو سکتا ہوں لیکن میرے ہاتھ پیر بندھے ہیں۔ 

۔

یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

مزید :

بلاگ -