"مشرف کو بچانے کا اب واحد راستہ یہ ہے کہ. . . " سینئر صحافی حامد میر نے انتہائی پریشان کن بات کہہ دی
اسلام آباد (ویب ڈیسک) خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کیخلاف کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیدیا اور اب اس پر سینئر صحافی حامد میر کا موقف بھی آگیا۔
مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ پر اپنے ٹوئیٹس میں انہوں نے کہا کہ ’’ مشرف کو بچانے کا اب واحد راستہ یہ ہے کہ انکے خلاف عدالتی فیصلے کو عدلیہ اور فوج کی لڑائی بنا دیا جائے یہ فیصلہ فوج کے خلاف نہیں فرد واحد کے خلاف ہے جو آج ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہے اگر یہ فیصلہ غلط ہے تو پھر سابق وزرائے اعظم کے خلاف عدالتی فیصلے بھی غلط تھے‘‘۔
ایک اور ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’’ہمیں یاد ہے ذرا ذرا جب کہا جاتا تھا کہ تین نومبر 2007 کو برطرف ہونے والی عدلیہ کبھی بحال نہیں ہوگی وہ عدلیہ بحال ہو گئی پھر کہا گیا ڈکٹیٹر کے خلاف کبھی مقدمہ نہیں چلے گا مقدمہ بھی چل گیا پھر کہا گیا فیصلہ کبھی نہیں آئے گا فیصلہ بھی آ گیا کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان بدل رہا ہے‘‘َ
حامد میر کے ٹوئیٹس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’’لیکن مشرف کو جس جرم کی سزا سنائی گئی ہے وہ انہوں نے بحیثیت آرمی چیف انجام دیا تھا، اب جب عدلیہ اتنی آزاد ہوگئی ہے تو لگے ہاتھوں اس عدالت کے ججز کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرے جنہوں نے مشرف کے اقدامات کی توثیق کی تھی‘‘۔
ایک اور صاحب نے لکھا کہ ’’"نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن جاری کروائے بغیر ٹیلی ویژن سے اعلان کروا دیا۔ یہ۔۔۔غیر آئینی اقدام تھا۔۔۔آئین شام ساڑھے سات نہیں، پانچ بجے ٹوٹ گیا تھا جب۔۔۔ٹیلی ویژن سے فوج کے سربراہ کی برطرفی کا اعلان کر دیا گیا"
راشد بھٹی نے لکھا کہ ’’اگر یہ فیصلہ درست ہے تو وہ تمام ججز اور وہ تمام سیاستدان جو اس وقت مشرف کے ہم پلہ تھے، انہیں بھی قانون شکنی کے جرم میں سزائے موت دی جاۓ۔ یہ کیس فرد واحد کا نہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی فرد واحد آئین توڑنے کی طاقت نہیں رکھتا‘‘۔
چوہدری علی احمد نے لکھا کہ ’’مشرف صاحب کی اگر زبان کھل گئی تو ایسا پنڈورا باکس کھلے گا کہ کئی پردہ نشینوں کے پردے پھٹ جائیں گے، اگر مشرف غدار ہیں تو غدار سے حلف لینے والی گیلانی کابینہ بھی غدار حلف اٹھانے والا وزیراعظم گیلانی بھی غدار ،یہ وہ زمانہ تھا جب نواز زرداری بھائی بھائی تھے‘‘۔
افضال بھٹی نے لکھا کہ ’’مرے کو مارنا کونسی بہادری ہے جب وہ طاقتور تھا زور آور تھا تو اسکے بوٹ چاٹے اسکے منہ سے نکلے الفاظ کو قانون کا درجہ دیا کس کو نہیں پتا کہ آج اسکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا مزا توجب آتا جب اپ اپنے ان بھائی بندوں کو بھی چڑھاتے جو اس زور آور کا آلہ بنے وقت امتحان پتلی گلی سے نکل گئے‘‘۔
باجوہ صاحب نے حامد میر کو جواباً لکھا کہ ’’میر صاحب عدالت کا فیصلہ غلط بھی ہو تو ریاست کے تمام اداروں پر عدالتوں کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس فیصلے پر بھی عمل درآمد ہونا چاہیے‘‘
ایک اور صاحب نے لکھا کہ ’’دل چاہتا ھے ان تمام افراد کو خواہ ان کا تعلق عدلیہ سے ہو یا فوج سے ایجنسیوں سے ہو یا سیاست سے سب کو کھڑے ہو کر پوری قوم سیلوٹ کرے جنہوں نے ایک آئین شکن کو سزاے موت سنائی،اس پر عمدرآمد اگر ہو جاۓ تو پاک فوج کی طرف اٹھنے والی انگلیاں ہمیشہ واسطے سرنگوں ہوں
پاکستان پائندہ باد‘‘۔
ایک اور صاحب نے لکھا کہ ’’اپکی اس بات سے بالکل متفق ہو. جو بھی ہو چاہے سیاستدان یا جرنیل جو اس ملک کے خلاف ہو اسے سزا دینی چاہیے.لیکن یہ آپ ہی تھے جو نواز شریف کے فیصلے کے خلاف چیخ رہے تھے دوغلا کہیں کا‘‘۔
ایک لیگی صارف نے لکھا کہ ’’بلکل حامد میر صاحب آپ نے بالکل صحیح کہالیکن کچھ لوگوں کی مجبوریاں ہیں مشرف کی بچانے کی بھرپور کوشش کریں گےتو پھر ان کا کیا ہوگا‘‘
محمد عرفان نے لکھا کہ ’’مشرف کو آئین شکنی پر سزائے موت ملنے پر مٹھائی کھانے والے تھوڑا صبر کر لیں یہ نا ہو کل کو اسی کیس کو ریفرنس بنا کر "ڈان لیکس" اور "ممبئی حملے پاکستان سے ہوئے" جیسے سنگین غداری کیس کھل جائیں اور حلق میں انگلیاں مار کے الٹیاں کرتے دکھائی دیں‘‘
فیض اللہ سواتی نے لکھا کہ ’’مشرف کو سزا کی خاصی اہمیت ہے ، گو کہ اس پہ عمل در آمد بہت مشکل کام ہے لیکن یہ پیش رفت گزرے ستر سالہ عدالتی تاریخ پہ بھاری ہے جب سارے سیاست دانوں کو آپ رگڑ چکے تو پھر اسکے سوا آپشن تھا ہی کیا ؟؟؟‘‘
چوہدری رضوان نے موقف اپنایا کہ ’’میر صاحب جب نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا تھا اس ٹائم بھی اس طرح ٹویٹ کرتے یہ عمران خان ہے جس کے حکومت میں 2 سابق وزیر اعظم سابق صدر سابق آرمی چیف سابق وزیر خزانہ اور داخلہ خارجہ کے وزراء قانون کی گرفت میں ائے آج تو آپ خوش ہے نہ‘‘۔
قیصر مصطفیٰ نے لکھا کہ ’’جی جناب یہ ہی تبدیلی ہے جس کا لوگ مزاق اڑاتے تھے اور کہتے تھےتبدیلی سرکار ۔ جب نواز شریف اور زرداری اندر ہوے تب ہی تبدیلی کے اثرات نظر آنا شروع ہو گے تھے ۔جب بڑے بڑے لوگ قانون کے شکنجے میں آہیں گےتب ہی قانون کی حکمرانی ہو گی اور قوم ان مافیا زدہ ماحول سے نکلے گی ‘‘۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’’اس عدلیہ کو بحال کروانے والا بھی نواز شریف تھا اور مشرف پر مقدمہ بنانے اور ٹرائل چلانے والا بھی نواز شریف تھا۔ وقت نے ثابت کیا نواز شریف تاریخ کی درست راہ پر تھا ‘‘۔
من موجی نے لکھا کہ ’’اس فیصلے سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ عدلیہ اب دباؤ نہیں لے رہی۔ یہ ایک اچھی چیز ہے پہلے عدلیہ ہمیشہ ایسٹبلشمنٹ کے زیرِ اثر رہتی تھی جبکہ موجودہ فیصلوں میں نظر آ رہا ہے عدلیہ بدل چکی ہے۔ اب وہ آزادنہ اور میرٹ پر فیصلے دینے کو ترجیع دے رہی۔ اسی میں عدلیہ کی عزت اور وقار ہے‘‘۔
نثار علی نے لکھا کہ ’’خان صاب کو اج کےتاریخی فیصلے سےخوش ہوناچاہئے کیونکہ انہوں نے چیف جسٹس سے التماس کی تھی کہ طاقتوراور کمزور کیلئےایک جیساقانون ہوناچاہئے۔اج عدلیہ نےثابت کیا کہ نہ کوئی قانون سےبالاتر ہےاور نہ کوئی مقدس گائے۔اج کےتاریخی فیصلےکےبعدکوئی بھی طالع آزماائین سےکھلواڑ کی جرت نہیں کرسکے گا‘‘۔
محمد مزمل نے لکھا کہ ’’عدلیہ کو بحال کروانا میرے قائد محترم میاں محمد نواز شریف کا کارنامہ ہے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 لگانا بھی میرے قائد محترم میاں محمد نواز شریف کی جرات ہمت اور بہادری کا شاخسانہ ہے آج پرویز مشرف کےخلاف سزائے موت فیصلہ بھی میرے قائد محترم میاں محمد نواز شریف کی دلیری کی وجہ سے ہے‘‘۔
ایک اور صارف نوید نے لکھا کہ ’’فیصلہ تو اچھا ھے مگر میں یہ سوچتا ہوں ، کہ جس ملک میں راو انور، احسان اللہ احسان اور کلبھوشن یادیو کو سزا نہیں مل سکتی وہاں سابق آرمی چیف اور سابق صدر پاکستان جرنل مشرف کو کیسے سزا موت دیں سکتے ھے....؟
سحرش نے لکھا کہ ’’آئینی طور پر درست فیصلہ ہے لیکن بنیادی طور پر فیصلہ غلط ہے کیونکہ مشرف نے اس وقت جو کیا وہ ایکشن نہیں ری ایکشن تھا نواز شریف بھی برابر کا مجرم ہے‘‘
محمد ذیشان نے سوال اٹھا یا کہ ’’کیا مشرف فیصلے کا مطلب ہےاب ڈان لیکس،میموگیٹ جیسےغداری کے معاملات میں بھی سزائےموت ہوگی؟کیونکہ آئین شکن اور غدار تو یہ ذرداری اور نواز مافیا بھی ہیں۔کیا یہی ججز ملک لوٹنے والوں کو سزائے موت دیں، کیا اُن کے خلاف بھی آرٹیکل 6 اور معاشی دہشت گردی کا مقدمہ درج ہو گا؟‘‘
فریحہ نامی صارف نے سوال اٹھایا کہ ’’کئی لوگوں اور صحافیوں نے پرویز مشرف مقدمےکےفیصلےکومیاں نواز شریف کی غلطی یا جلدی قراردیا مگر میاں نواز شریف ڈٹا رہا-کیا آپ اس کا کریڈٹ میاں صاحب کو دیں گے؟‘‘
یادرہے کہ خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی۔اسلام آباد میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کیخلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کی۔
حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست کرتے ہوئے شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی۔ راسیکیوٹر نے کہا کہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں۔عدالت نے قرار دیا کہ پرویز مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی، ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ کیا حکومت پرویز مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟، آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں، ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔
جسٹس نذر اکبر نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا، استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے استغاثہ سے کہا کہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے لیکن پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔ خصوصی عدالت کے ججز نے کہا کہ یہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔مشر ف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل میں کہا کہ دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے، اس لیے سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے، کیس میں استغاثہ اور مشرف کے وکیل دونوں ہی ملزم کا دفاع کر رہے ہیں۔
عدالت نے آئین سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی اور تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔ تین ججز پر مشتمل خصوصی عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایکسپریس کے مطابق 12 اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ملک میں فوجی قانون نافذ کرکے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کردیا اور 20 جون 2001ء کو صدارتی ریفرنڈم کے ذریعے صدر بن گئے۔3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو گھروں میں نظربند کردیا تھا۔پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے ’سنگین بغاوت‘ کا جرم ہے جس کی سزا پھانسی ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے 2013 میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ ملزم پرویز مشرف خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہونے سے گریز کرتے رہے اور صرف ایک مرتبہ ہی پیش ہوئے۔عدالت نے 31 مارچ 2014 کو ان پر غداری کی فردِ جرم عائد کی۔ 2016 کو وہ طبی بنیادوں پر علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے جس کے بعد سے وہ وطن واپس نہیں آئے۔عدالت نے پرویز مشرف کی مسلسل غیر حاضری اور پیش نہ ہونے پر انہیں اشتہاری قرار دے کر ملک میں موجود ان کے تمام اثاثے ضبط کرلیے جس کے بعد آج 17 دسمبر 2019 کو انہیں سزائے موت سنائی گئی۔
اس فیصلے پر سابق صدر کا ذاتی موقف بھی آگیا اور نجی ٹی وی جیونیوز نے ذرائع کے حوالے سے کہاہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس کے فیصلے کی اطلاع اپنے پینٹ ہاﺅس میں ٹی وی چینلز کے ذریعے سنی ہے ۔ وہ اس وقت دبئی کے مہنگے علاقے میں اپنے سپر لگژری پینٹ ہاﺅس میں مقیم ہیں جبکہ انہیں چند دن قبل ہی ہسپتال سے گھر منتقل کیا گیاہے ۔نجی ٹی وی نے آل پاکستان مسلم لیگ امارات کے حوالے سے کہاہے کہ پرویز مشرف کی طبیعت ناساز ہے ، وہ اپنے وکلاءسے صلاح اور مشورے کے بعد فیصلے پر رد عمل جاری کریں گے ۔
ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے خصوصی عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ پرویز مشرف جب ملک میں تھے تب بھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے تھے وہ عدالت کیلئے گھر سے نکلتے تھے اورہسپتال میں چلے جاتے تھے پرویز رشید کاکہناتھا کہ پرویز مشرف کو پناہ دی جاتی تھی اوروہ قوتیں پاکستان کے اندر موجود ہیں جو اس فیصلے کے راستے میں رکاوٹ بنتی تھیں،لیگی رہنما نے کہا کہ پرویز مشرف کا بیان موجود ہے کہ راحیل شریف کی کوششوں سے وہ ملک سے باہر گئے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے نجی ٹی وی جی این این کو خصوصی عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ آج جمہوریت کیلئے بڑا دن ہے ،قانون کی بالادستی کیلئے بڑا دن ہے،انہوںنے کہاکہ پاکستان میں جو بڑا 14 اگست1947 کو شروع ہواتھا اورپھراس بڑے دن کواکتوبر1958 میں ایوب خان کے مارشل لا کے ذریعے قتل کیاگیا،اس قتل کے بعدیہ دوبارہ ہماری زندگی کے آغاز کا دن ہے یہ کسی ایک جماعت یا کسی ایک فردکا دن نہیں ہے یہ پورے پاکستان کی اس قوم کا دن ہے جس نے ووٹ کے ذریعے قانونی طور پر اپنے ملک کیلئے آزادی حاصل کی تھی ۔
ایک سوال کے جواب میں پرویز رشید نے کہاکہ پرویز مشرف کے باہر جانے سے تو اس فیصلے کا کوئی تعلق نہیں ہے وہ باہر ہیں تب بھی فیصلہ وہی آیا ہے جو قانون کے مطابق بنتا ہے۔لیگی رہنما نے کہا کہ وہ ملک میں تھے تب بھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے تھے وہ عدالت کیلئے گھر سے نکلتے تھے اورہسپتال میں چلے جاتے تھے اوران کو پناہ دی جاتی تھی اوروہ قوتیں پاکستان کے اندر موجود ہیں جو اس فیصلے کے راستے میں رکاوٹ بنتی تھیں،لیگی رہنما نے کہا کہ پرویز مشرف کا بیان موجود ہے کہ راحیل شریف کی کوششوں سے وہ ملک سے باہر گئے۔
ایک اور سوال پر پرویز رشید نے کہاکہ میری حکومت میں میراوزیراعظم اقامہ پر نااہل ہواہے، حکومت میں ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا پاکستان میں اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے حکومت کے پاس ااقتدار بھی نہیں ہوتامیری حکومت تو بیچاری اپنے آپ کو اقامہ سے نہیں بچا سکی میری حکومت نے تو مجھے بھی برطرف کردیاراحیل شریف ہم سے طاقتور تھے ۔
انہوں نے آج کے عدالتی فیصلے کے حوالے کہا کہ یہ وہ فیصلے ہے جس کے تحت پاکستان بنا تھاآج ہم نے اس نظریے کوتسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں آمریت جو ہے یا قانون سے جوبالادستی ہوگی یا قانون سے جو انحراف ہوگاوہ غداری قراردیاجائے گا،اس فیصلے سے کسی کیلئے اقتدار میں آنے کیلئے رکاوٹ کھڑی ہو گئی ہے اس سے پہلے کوئی سوچتا بھی نہیں تھا اب ضرورسوچتاضرور جائے گا۔