نمازِ استسقاء کا اہتمام ہی کر دیں!
پنجاب کے متعدد علاقوں میں سموگ ان دنوں اپنے زوروں پر ہے اور لاہورکے شہری سب سے زیادہ اذیت میں مبتلا ہیں کہ نہ وہ شہرسے بھاگ سکتے ہیں کہ کاروبار‘ تعلیم اور رہائش یہاں ہے اور نہ اس گھٹی گھٹی فضا میں پورا سانس لے پاتے ہیں کہ پوری آکسیجن ہی نہیں ملتی۔ سب کے پھیپھڑے زور لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔ سانس کے ذریعے جسم کے اندر جو کچھ جاتا ہے اس میں آدھی آکسیجن ہوتی ہے تو باقی کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ کاربن مونو آکسائیڈ‘ سلفر ڈائی آکسائیڈ‘ نائٹروجن آکسائیڈ۔ پچھلے کئی برسوں سے ہر سال نومبر‘ دسمبر میں اسی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے ایسے اقدامات کرنے کے وعدے کئے جاتے ہیں‘ جن سے سموگ میں آئندہ سال کمی واقعہ ہو کہ اس کا یک دم ختم ہونا ناممکنات میں سے ہے‘ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ سموگ کی شدت میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ سموگ کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانے کے لئے زبانی جمع خرچ تو بہت کیا جاتا ہے‘ عملی طور پر کچھ بھی نہیں۔ شہری سموگ کے حوالے سے حکومتی کارکردگی سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے آلودہ شہروں میں لاہور آج بھی پہلی پوزیشن پر براجمان ہے۔ یہ شہر صفائی‘ ٹریفک آداب‘ شہری سہولتوں‘ صحتِ عامہ کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہو نہ ہو ہر سال گندگی اور آلودگی میں پہلے نمبر پر ضرور آتا ہے۔ آج کل تو بڑی عجب کیفیت ہے جو اس شہر کے سارے ہی باسیوں پر طاری ہے۔
ہر بندہ کھوؤں کھوؤں کر رہا ہے۔ ہر بندہ نزلے زکام سے نمٹنے کے لئے رومال یا ٹیشو پیپر ہاتھ میں تھامے ہوئے ہے۔ نزلہ، زکام‘ کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن سموگ کی ظاہری علامات ہیں آج کل لاہور اور گرد و نواح میں رہنے والا ہر شخص جن سے متاثر ہو رہا ہے۔ سموگ کے انسانی صحت پر کچھ ایسے شدید مضر اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں جو فوری طور پر تو نظر نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ سوچتا ہوں عام بندہ اگرپورا سانس نہیں لے پا رہا تو دمے کے بے چارے مریضوں کا آج کل کیا حال ہو رہا ہو گا۔ تو کیا کچھ عرصے بعد پاکستان میں سانس کی بیماریوں کے شدت اختیار کر جانے اور پھیپھڑوں کے سرطان کے خطرات میں اضافہ ہو جائے گا؟ لگتا تو ایسے ہی ہے‘ لیکن افسوس کہ اس خطرے کا اس شدت کے ساتھ ادراک نہیں کیا جا رہا جس شدت کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔
سموگ کیسے بنتی ہے یہ اب سبھی جان چکے ہیں۔ ہماری سڑکوں پر بے تحاشا ٹریفک ہے اور گاڑیوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ وجہ ایک ہی ہے مناسب تعداد میں معیاری پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا جس کی وجہ سے سبھی لوگ اپنی سہولت کی خاطر نجی ٹرانسپورٹ رکھ رہے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف شہروں میں ٹریفک جام کا باعث بن رہا ہے بلکہ اس سے فضائی آلودگی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب جب کسان اپنے کھیتوں میں دھان کی فصل کی باقیات جلاتے ہیں تو اس سے مختلف گیسوں پر مبنی دھویں کے مرغولے اٹھتے ہیں جو سموگ کی شدت بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ پہلے دھان کی فصل کی ہاتھوں سے کٹائی کی جاتی تھی تو نیچے بہت چھوٹے مڈھ باقی رہ جاتے تھے‘ جن کو کھیتوں میں ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا اور اگر جلایا بھی جاتا تو ان سے دھویں کی اتنی زیادہ مقدار پیدا نہیں ہوتی تھی کہ فضا کو بہت زیادہ آلودہ کر سکے۔ اس سے آلودگی پیدا تو ضرور ہوتی تھی لیکن اتنی نہیں کہ پوری فضا ہی دھواں دھواں ہو جائے اور سانس لینا محال ہو جائے۔
اس سموگ کے مسئلے کے دو ہی حل ہیں۔ پہلا یہ کہ شہروں‘ خصوصی طور پر بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مناسب بندوبست کیا جائے تاکہ لوگوں میں نجی ٹرانسپورٹ رکھنے کا رجحان کم ہو۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایسی ہونی چاہئے کہ لوگ بسہولت گھروں سے دفاتر اور دوسری متعلقہ جگہوں تک پہنچ سکیں۔ اس کے نتیجے میں آلودگی تو کم ہو گی ہی‘ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر جو کثیر زرِ مبادلہ ہر سال بلکہ ہر ماہ اور ہر دن خرچ ہوتا ہے‘ وہ بھی بچایا جا سکے گا‘ جس کے قومی معیشت پر مثبت اثرات کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکے گا۔
دوسرا حل یہ ہے کہ دھان کے مڈھوں کو جلانے کے بجائے تلف کرنے یا اس کو قدرتی کھاد کی شکل دینے کا کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دھان کے مڈھ جلانے سے کسان کو دو فائدے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مڈھوں میں دھان کی فصل پر پلنے والے حشرات نے اگلی فصل کی نمو کے وقت بارآور ہونے کے لئے جو انڈے دے رکھے ہوتے ہیں اور جو دوسری بیماریوں کے جراثیم از قسم پھپھوندی موجود ہوتے ہیں وہ تلف ہو جاتے ہیں‘ یوں کسان کی اگلی فصل قدرے محفوظ ہو جاتی ہے۔ دوسرا فائدہ کسان کو یہ ہوتا ہے کہ مڈھے جلانے سے جو راکھ بنتی ہے وہ اگلی فصل کے لئے کھاد کا کام دیتی ہے۔
دھان کے مڈھے اس لئے بڑے اور لمبے ہوتے ہیں کہ اس کے لئے عام طور پر وہی ہارویسٹر استعمال کیا جاتا ہے جو گندم کی فصل کی کٹائی اور گہائی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال اب چاول کی فصل کی کٹائی کے لئے جدید ہارویسٹر بھی بن چکا ہے جو فصل کو بالکل نیچے سے کاٹتا ہے جس کے بعد بچنے والے مڈھوں کو جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان مڈھوں کو ہل چلا کر زمین میں ملا دیا جاتا ہے اور وہ گل سڑ کر کھاد کا کام دیتے ہیں۔ اس ہارویسٹر کے استعمال کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے کسان کے لئے پرالی خاصی بڑی مقدار میں بچ جاتی ہے جسے وہ اپنے کسی کام میں لا سکتا ہے۔
بات لمبی ہو گئی‘ مجھے تو صرف یہ کہنا ہے کہ حکمران اگر سموگ کے خاتمے کے لئے کچھ اور نہیں کر سکتے تو نمازِ استسقاء کا ہی اہتمام کر دیں کہ باراں رحمت ہو اور خلقِ خدا کو سموگ کے اس عذاب سے نجات ملے۔