پاکستان میں پٹواریوں کی خدمات 

Dec 17, 2024

مختار چودھری

ہمارے ملک کا ایک محکمہ ہے جس کا نام”مال“ ہے۔ میرا علم اتنا وسیع نہیں کہ میں لفظ مال کے معانی سمجھ سکوں، ہمارے معاشرے میں مال کو کئی معانی پہنائے جاتے ہیں مثال کے طور پر فلاں بندے کے پاس بہت مال ہے، فلاں بندہ بہت مال بنا رہا ہے، دکاندار اپنی مصنوعات کو بھی مال کہتے ہیں، یعنی ہمارے پاس اتنا زیادہ مال ہے یا ہم نے مال بک کروا رکھا ہے۔ ہمارا مال بہت اچھا ہے، کچھ جنس نازک کے شوقین لوگ انسانی جسم کو بھی مال سمجھتے ہیں ہم زمیندار لوگ اپنے مویشیوں کو مال کہتے ہیں،بلکہ بچپن اور لڑکپن میں تو ہمیں مال کی اتنی ہی سمجھ تھی کہ مویشی مال ہوتے ہیں یعنی مال مویشی، لیکن جہاں تک محکمہ مال یا وزیر مال کا تعلق ہے تو ان کے پاس زمینوں کا حساب کتاب ہوتا ہے، یعنی ان کے پاس کتابیں ہوتی ہیں جن میں زمینوں کا حساب ہوتا ہے کہ کونسی زمین کس کی ہے یا کس کی زمین کتنی ہے۔ ہمارے ملک کا یہ محکمہ اپنی خاص نوعیت رکھتا ہے دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اس نام کے ساتھ اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں اور نہ ہی ہماری طرح زمینوں کے مقدمات عدالتوں میں چلتے ہیں ہر ملک کا زمینوں کے حوالے سے اپنا اپنا قانون اور طریقہ کار ہے، جن میں سے ایک چھوٹے ملک ناروے کی مثال دیتا ہوں وہاں جو کاشتکاری والی زمین ہوتی ہے اسے تقسیم در تقسیم کرنے کی اجازت نہیں ہے وہاں مختلف علاقوں میں جو زمیندار ہیں ان کے پاس ایک مربع کے لگ بھگ زمین ہوتی ہے جسے خاندان میں کبھی تقسیم نہیں کیا جاتا، بلکہ فیملی میں سے ایک فرد اس زمین کو اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور اگر فیملی میں سے کوئی بھی نہ رکھنا چاہے تو اس قطعہ زمین کو کوئی اور بھی خرید سکتا ہے، مگر تقسیم نہیں ہوگی وجہ اس کی یہ ہو سکتی ہے کہ کاشتکاری والی زمین تقسیم ہوتے ہوتے اتنی تھوڑی رہ جاتی ہے، جس میں سے ایک خاندان کی گزر بسر نہیں ہو سکتی اور پھر وہ کاشتکاری چھوڑ  کر کوئی اور کام ڈھونڈ لیتے ہیں اس طرح اجناس کی قومی پیداوار میں کمی ہونے لگتی ہے، جس طرح ہمارے زیادہ تر بارانی علاقوں میں ہو چکا ہے اور ہمارے ملک کی لاکھوں ایکڑ زمین غیر آباد پڑی ہے اس میں ان جاگیرداروں کی زمینیں بھی غیر آباد ہیں، جن کے پاس سینکڑوں مربع زمین ہوتی ہے جبکہ ان کا گزارہ چند مربع زمین سے ہو جاتا ہے باقی زمین وہ غیر آباد رکھتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن کی زمین تقسیم در تقسیم سے اتنی کم ہو جاتی ہے کہ اس پر ایک فیملی کا بھی گزارہ نہیں ہو سکتا، لیکن ہمارے محکمہ مال کا ایک کمال یہ ہے کہ انہوں نے لاکھوں یا شاید کروڑوں لوگوں کا بغیر کام کے روزگار لگا رکھا ہے وہ اس طرح کہ وہ زمینوں کے ریکارڈ میں کچھ اس طرح سے ہیر پھیر کرتے ہیں کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آ سکتی کہ کون سی زمین کس کی ملکیت ہے اور پھر اس پر جھگڑے ہوتے ہیں اور اس کے آگے پھر پولیس، ڈاکٹروں، وکلاء، منشیوں، عدالتی اہلکاروں، علاقے کے معتبروں اور سیاستدانوں کے روزگار کھل جاتے ہیں اور وہ خوب کماتے ہیں ہماری عدالتی زبان میں زمینی مقدمات کو دیوانی مقدمات کا نام دیا جاتا ہے اور ان مقدمات کا فیصلہ یا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا اور اگر ہو بھی جائے تو اس کے انتظار میں کئی نسلیں گذر جاتی ہیں ان مقدمات کا نام دیوانی شاید اس لئے ہے کہ یہ لوگوں کو دیوانہ بنا دیتے ہیں اور بعض اوقات اس دوران زمین کسی کے تصرف میں بھی نہیں رہتی نہ اس سے فصل اگائی جاتی ہے۔ اسی طرح جو مکانات مقدمے کی زد میں آ جاتے ہیں پھر ان پر تالے لگے رہتے ہیں اور ان کی حالت بوسیدہ ہو جاتی ہے۔ اب یہ سب محکمہ مال کے اسکیل 9 کے ملازم پٹواری کا کیا دھرا ہوتا ہے اسی لیے ہمارے ملک میں پٹواری بہت بدنام بھی ہے۔ پٹواری کے کردار کو بدعنوان کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن یہ ایک طرف کی تصویر ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ پٹواری کی تعیناتی کے طریقہ کار سے شروع ہو کر افسروں کی ہر طرح کی خدمات سرانجام دینے سے حکومت کے احکامات پر کئی دوسرے کام کرنے تک ہے۔ میرے اس کالم کا اصل مقصد پٹواری کی بغیر تنخواہ کے خدمات کو سامنے لانا ہے اس کے ساتھ ان عوامل کو سامنے لانے کی کوشش کرنا ہے جن کی بدولت پٹواری بدعنوانی کرتے ہیں۔ اب ذرا سوچئے کہ دنیا میں ایسا کون انسان ہے،جو کئی برس تک مفت میں کام کرتا ہے؟ آج کی دنیا میں گھنٹوں کے حساب سے تنخواہ دی جاتی ہے، جبکہ ہمارے ملک میں ایک نوجوان پٹواری بننے کے لئے پہلے محکمہ مال میں کئی برس تک کام سیکھتا اور کرتا ہے یعنی اسے کسی پہلے سے کام کرنے والے پٹواری کے ساتھ بطور شاگرد لگا دیا جاتا ہے ایک دو یا تین برس کام کرنے کے بعد اس کا امتحان ہوتا ہے امتحان میں جتنے نوجوان پاس ہو جاتے ہیں پھر وہ اپنی تعیناتی کے منتظر بغیر تنخواہ کام جاری رکھتے ہیں اب کوئی پوسٹ خالی ہوگی تو کسی ایک کی تعیناتی ہو سکے گی پھر اس کے آگے وہ مکمل پٹواری نہیں ہوتا اور اپنے کام کی تصدیق کسی دوسرے سینئر سے کرواتا ہے اسی طرح کئی برس تک وہ کچا پٹواری رہتا ہے جسے پنجاب میں پٹواری کا منشی کہا جاتا ہے۔ پٹواری کی تنخواہ بھی زیادہ تر سرکاری ملازمین سے کم ہوتی ہے، جبکہ کام بہت زیادہ اور پیچیدہ ہوتا ہے پٹواری صرف اپنا یعنی زمینوں کا ہی کام نہیں کرتے،بلکہ حکومت کے بہت سارے کام بھی پٹواریوں کے ذمے لگا دئیے جاتے ہیں کوئی سروے کروانا ہو، مردم شماری کرنا ہو، ووٹر فہرستوں کی تجدید کروانا ہو کوئی میلہ کروانا ہو، حکومتی جلسوں کو کامیاب کروانا ہو، قدرتی آفات میں بحالی کا کام، عوام میں کوئی منادی کروانا ہو اور بعض اوقات امن و امان کی بحالی کے کام میں بھی پٹواریوں کو استعمال کیا جاتا ہے. اس کے علاوہ پھٹیکس (افسران کے ذاتی کام) وہ بھی اپنی یا عوام کی جیب سے، ڈی سی صاحبان یا دوسرے افسران بالا جب مرضی حکم دے دیتے ہیں کہ میری گاڑی میں تیل ڈلوا دیں، بچوں کی سیر کروا دیں، مہمانوں کے لئے کچھ بندوبست کروا دیں، اب آتے ہیں پٹواری کی طاقت کی طرف، ہمارے ہاں ایک مقولہ ہے کہ اس ملک میں اگر کسی کی حکومت ہے تو وہ تھانیدار اور پٹواری ہے۔ کوئی بھی حکم یا تفتیش صدر یا وزیراعظم سے چل کر پٹواری تک پہنچتی ہے اور اسی کی رپورٹ کی روشنی میں تمام فیصلے ہوتے ہیں اور پٹواری جب چاہے کسی کی زمین درستگی کے نام پر جس کے مرضی نام کر سکتا ہے۔

آخر میں سوال ہے کہ پٹواریوں سے بغیر تنخواہ سے کام لینا کہاں کا انصاف ہے؟ حکومت کو فوری طور پر اس مسئلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور تمام پٹواریوں کی رجسٹریشن کے پہلے دن سے انہیں تنخواہیں دی جائیں۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں