پانچ سالہ جمہوری دور:اِ ک عوامی تجزیہ

پانچ سالہ جمہوری دور:اِ ک عوامی تجزیہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 گزشتہ 65سالوں میں پاکستانی عوام تین بار فوجی آمریت کا دور بھگت چکے ہیں۔موجودہ جمہوری حکومت سے پہلے بھی پرویز مشرف کا آمرانہ دورِ حکومت تھا۔اللہ اللہ کرکے آمریت کا دس سالہ دور ختم ہوا اور پاکستان میں ایک بار پھر انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر آنے والوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ جمہوری حکومت کے آتے ہی پاکستانی عوام کے ذہنوں میں اس خیال نے ڈیرے ڈال لیے کہ یہ عوامی نمائندے پاکستان کے غریب عوام کی فلاح وبہبود کے لیے سر توڑ کوششیں کریں گے اورپاکستان ایک بار پھر امن کا گہوارا بن جائے گا۔موجودہ حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے کو ہے ۔
عوامی نقطہ نظر سے اگر ان پانچ سال کا تجزیہ کیا جائے تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی عوام کی حالت تو آمریت کے دور سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔مہنگائی کی شرح میں اس تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ بعض چیزیں تو اب غریب تو کیا‘متوسط طبقے کی بھی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔مہنگائی کاتناسب بطور نمونہ پیش کی جانے والی چند چیزوں کی قیمتوں سے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ پٹرول 56روپے فی لیٹر سے103روپے‘ڈیزل 39 سے 116‘سی این جی30سے90 روپے ہوگئی ہے۔سپریم کورٹ نے سی این جی کی قیمت میں نومبر 2012ءمیں کچھ کمی تو کی ‘ لیکن قیمت کی کمی کے ساتھ سی این جی ملنا ہی بند ہوگئی۔عام بنیادی خوردونوش کی مہنگائی کا تناسب ملاحظہ ہو:آٹا 16سے37 روپے کلو‘چینی 25سے60‘دودھ35سے80اور کھانے کا آئل 70سے190روپے کلو ہوگیا ہے۔اس مہنگائی کی اصل وجہ ”کرپشن“ہے جس میں پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔اس کا اندازہ دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھے ہوئے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپوٹ 2012ءسے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں پچھلے دو سالوں میں 47ویں نمبر سے 33ویں نمبر پر آگیا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں یومیہ سات ارب کی کرپشن کی گئی ہے ‘جبکہ چیئرمین نیب کے ایک بیان کے مطابق یومیہ کرپشن گیارہ سے بارہ ارب کی ہے۔
 مہنگائی اورکرپشن کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور کاروبار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاروباری حضرات اپنا کاروبار دوسرے ملکوں اور بنگلہ دیش منتقل کررہے ہیں۔کاروباری مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ہی پاکستان میں بیروزگاری اور جرائم کا گراف بھی بہت تیزی سے اوپر کو جارہا ہے۔ دوسری طرف بجلی یونٹ کے ریٹ بھی آئے دن بڑھائے جا رہے ہیں۔گزشتہ پانچ سالوں میں یونٹ کا ریٹ 11.38روپے تک پہنچ گیا ہے۔اس کی بنیادی وجہ بجلی چوری ہے جس کا خمیازہ یہ غریب عوام بھگت رہے ہیں۔ پھر سونے پہ سہاگہ کے مصداق ان پانچ سالوں میں کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کسی اور ذریعے سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کالا باغ ڈیم جو اس ملک کے لیے انتہائی مفید ہے‘کے ایشو کے علاوہ باقی تمام ایشوزپر ساری سیاسی پارٹیاں متفق ہوجاتی ہیں لیکن اس پر کوئی پارٹی بھی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آگے نہیں آتی۔اس کے علاوہ اگران پانچ سالو ںکو امن وامان اور سیکورٹی کی صورتحال کے تناظر میں پرکھا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ پاکستان میں آئے دن بم دھماکے اور قتل کی وارداتیں ہورہی ہیں‘لوگ مولی گاجر کی طرح کاٹ کر پھینک دیے جاتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔شہر قائد کراچی میں تو اوسطاً ہر روز دس لوگ قتل کردیے جاتے ہیں اور حکومتی ادارے بے بس نظر آتے ہیں یا خود بے بس بنے ہوئے ہیں۔
اب سیاسی نمائندے اور سیاسی جماعتیں ہی پاکستانی عوام کو بتائیں کہ جمہورت کے اس پانچ سالہ دور میں عوام کو کیا ملاہے؟وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستانی عوام موجودہ اسمبلیوں کو یاد رکھیں گے۔میرے اندازے کے مطابق یاد تو رکھیں گے مگر شاید مثبت پہلوسے نہیں۔اس لیے کہ اس دور میں نہ تو عوام کے دن بدلے گئے ‘نہ اُن کے لیے خوشحالی آئی اور نہ امن کی کوئی فضا قائم ہوسکی۔آمریت کے دور میں بھی عوام کی یہی حالت تھی اور اِس جمہوری دور میں بھی عوام اُسی طرح مرمر کے جی رہے ہیں یا جی جی کے مر رہے ہیں۔ حالانکہ موجودہ حکمران پارٹی ایک عوامی جماعت کے روپ میں وجود میں آئی تھی اوراس نے عوام کی فلاح وبہبودکے لیے ”روٹی ‘کپڑا اورمکان“کا نعر ہ لگایا تھا‘ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام ان ہی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں جن کا نعرہ موجودہ حکمران پارٹی کا موٹو ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:”عوام مر رہے ہیں لیکن بھٹو آج بھی زندہ ہے“۔آخر میں چند دن پہلے کا ایک موبائل میسج قارئین کے لیے پیش خدمت ہے:ایک ٹیچر کلاس روم میں چھوٹے بچوں کو لیکچر کے دوران بتا رہا تھا کہ افریقہ میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن میں رہنے والے لوگوں کے پاس نہ روٹی ہے‘نہ کپڑا ہے اور نہ مکان۔پیچھے بیٹھا ہوا ایک بچہ کھڑے ہو کر معصومیت سے کہتا ہے: ”سر!کیا وہاں بھی بھٹو زندہ ہے؟“  

مزید :

کالم -