کمینی۔۔۔۔۔!!

مین بولیورڈ سے ایم ایم عالم کا رخ کریں تو لاہور چٹخارہ والا گول چکر آتاہے، ساتھ ہی کچھ برگرز والے اور تمباکو فروشوں کے کھوکھے ہیں، ذرا آگے چلیں تو ایم ایم عالم کا باقاعدہ آغاز ہو تاہے، دوسری جانب کھاڈی ہے اور اس کے ساتھ آگے کچھ جیولرز اور خواتین کے کپڑے بیچنے والے آوٹ لٹس ہیں۔ گول چکر کے ساتھ ساتھ گھومیں تو پھولوں کی دکانیں بھی دکھائی دیتی ہیں، اور ذرا آگے والی سڑک گْرومانگٹ روڈ کی جانب گھوم جاتی ہے۔ کھاڈی کی مخالف سمت میں پھولوں والی دکانوں کے باہر رنگین غبارے والے بھی پائے جاتے ہیں۔
ایم ایم عالم مڑنے کی بجائے ملنگوں کا روٹ گْرومانگٹ تھا کہ نظر اور گاڑی دونوں بیک وقت ایک خاص زاویے پر رک گئے۔ یہ وہ زاویہ تھا جہاں سے چند میٹر کی دور ی پر ایک بڑا غبارہ ہوا میں دھاگے کے سہارے لہرا رہا تھا۔ رْکنے کی وجہ یقیناًغبارہ تو نہیں تھا، بلکہ وہ ہاتھ تھا جو تیزی سے اس غبارے سے بندھے دھاگے کی جانب لپک رہا تھا۔ وہ ہاتھ اس قدر شناسا تھا کہ شہر لاہور کے مصروف ترین چوراہے پر بھی پہچانا گیا۔ (ہر گز نہیں۔۔!! جو آپ سوچ رہے ہیں ویسا ہر گز نہیں۔۔! یہ ہاتھ ہمارے گالوں تک ضرور پہنچا ، لیکن۔۔!) وہ عجب افرا تفری میں ڈرائیونگ سیٹ سے اتری، دروازہ ابھی مکمل بند نہ ہوا تھا کہ وہ غبارے کو تھام چکی تھی، غالباً ریٹ طے ہو رہا تھا، یو ٹرن لے کر میں واپس کھاڈی کے قریب آکھڑا ہوا کہ اسے جی بھر کے دیکھ لوں۔۔! سیٹ پیچھے دھکیلی، ٹیک لگائی، سگریٹ سلگایااورنہ چاہتے ہوئے بھی فلمی انداز میں شیشہ نیچے اْتار کر اسے تکتا رہا۔ غالباً اس نے 'شنائیر' کا 'اوول بلیو' زیب تن کر رکھا تھا۔ فلیٹ جوتوں میں بھی وہ سرو قد دکھائی دے رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح بھیڑ میں بھی سب سے نمایاں۔
یہ ڈر بھی تھا کہ وہ دیکھ نہ لے۔۔! گمان گزار چودہ فروری ہے شاید وہ کسی خاص شخص کیلئے غبارے اور پھر پھول خریدے گی، اور یہیں کہیں ایم ایم عالم پر شام کی کافی اس کی مہک میں دم لے گی۔ لمبا کش کھینچا تھا کہ وارڈن آٹپکا۔۔ گڈی سائیڈ تے لاو پائین۔۔! سین خراب ہو چکا تھا۔ گاڑی سے اترنا پڑا۔۔ !معلوم ہوا کہ موصوفہ ہمیں دیکھ چکی ہیں۔بعد مدت کے اسے ملنا پڑ گیا۔ قریب گیا تو اس نے شیڈز اتارے، میں قدرے پریشانی کے عالم میں اس کے نسبتاً بدلے بدلے 'نین نقش' پر غور کر رہا تھا کہ وہ سلام دعا مائنس کر کے مصنوعی مسکراہٹ کیساتھ گویا ہوئی ، ہاں! یہ وہی شیڈز ہیں جو تم نے سات برس پہلے میری برتھ ڈے پر دئیے تھے! وہ قدرے الجھی ہوئی تھی، حلیہ بھی خاصا رَف تھا۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نمایاں تھے۔ اور میں شدید ذہنی و قلبی الجھن کا شکار ہوکر شیڈز نہیں بلکہ اس کی شخصیت کا الجھا پن دیکھ رہا تھا۔
ٹھیک ہو نا؟ ا س نے کئی برس بعد پوچھا!
کہا: ہاں! تم؟ یہاں؟ لاہور میں؟
ہاں! چھٹیوں پر یہاں آجاتے ہیں۔ اینڈ یو؟ اس نے پوچھا!
کہا: ہاں! بس ایسے ہی، گزر رہا تھا۔
اس سے پہلے کہ مزید استفسار کرتا، پرل وائٹ ہنڈا سوک کے پچھلے دروازے سے ملازمہ چھوٹا سا گلابی بچہ اٹھائے باہر آگئی، باجی! امان! جاگ گیا ہے۔ ملازمہ کے پیچھے ہی ایک انتہائی تنک مزاج پانچ یا چھے برس کی بچی بھی برآمد ہوئی ، جس نے اترتے ہی کہا: یہ نہیں!! میں پنک بیلون مانگ رہی تھی۔۔! متعلقہ غبارے پر ہاتھ رکھ کر اس نے کہا۔ 'دِس وَن مام'۔۔۔!
وہ قدرے ہڑبڑا اٹھی۔۔ ! اچھا یہ بھی لے لو اور یہ بھی لے لو۔ فرزانہ ! تم ان دونوں کو لے کر گاڑی میں بیٹھو، میں پیسے دے کرآرہی ہوں۔
تم نے میرے بچوں کو بھی نہیں پہچانا۔۔؟ اس نے پوچھا۔
یہ علیشا تھی۔۔! امان پچھلے برس 'نو جنوری ' کو پیدا ہوا تھا۔
۔آر یو کڈنگ می؟ نو جنوری؟ لائک سیریسلی؟ میں نے کہا!
جواب دینے کی بجائے وہ بولی! دیکھو! علیشا بالکل مجھ پہ گئی ہے ناں؟
نہیں! میں نے کہا!
کیوں؟ اس نے پوچھا!
اس لئے کہ تم پچھلے پانچ منٹ میں وہ غبارہ نہ خرید سکیں جس کی خواہش کا اظہار تمھاری بچی نے کیا۔ اور علیشا نے فقط چند لمحوں میں وہ غبارہ فورا اْچک لیا جو اسے پسند تھا۔ لہذا وہ تم پر بالکل نہیں گئی۔ معذرت!
اب تو گلِہ کرنا چھوڑ دو پلیز۔۔! تم بھی ناں۔۔۔!اچھا سنو۔۔۔! میں تمہیں کسی روز فون کروں گی۔ پھر تفصیل سے بات ہو گی۔ وہ یہ کہہ کہ پرس سے پیسے نکالنے لگی۔ بل غالباً اسی روپے تھا، اس کے پاس بڑا نوٹ تھا! باجی چینج نہیں ہیگا؟ غبارہ فروش بولا۔! اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا۔۔ وہ بولی۔۔ اچھا سنو۔۔! ٹوٹے ہیں تو اسے دے دو ناں!
ٹوٹے تھے تو اْسے دے دیا۔۔ ٹوٹے ہیں۔۔ اسے بھی دے دیتے ہیں۔۔! یہ کہا ہی تھا کہ وہ شیڈز پہن کر آنکھیں چراتی ہوئی چل دی۔سو روپے کا نوٹ غبارہ فروش کو تھماتے ہوئے پلٹ کر دیکھا تو وہ گاڑی سٹارٹ کر چکی تھی، ہاتھ لہرایا اور چل دی۔ میں فقط اتنا ہی کہہ سکا۔۔ کمینی۔۔۔۔!!
(نوٹ:یہ انتہائی بے ادب کالم ہے جو بے حد ادب کے مقام پر رہتے ہوئے لکھا گیا۔ کسی بھی شخص یا مقام کی مماثلت محض اتفاق ہوگی ، وقوعہ البتہ من و عن حقیقت پر مبنی تھا )