سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم :سچائی کیا ہے؟
سعودی عرب میں گزشتہ سال نومبر میں کرپشن کے خلاف مہم شروع کی گئی تو اسے ایک حد تک خفیہ رکھا گیا، اگرچہ شاہی خاندان کے کئی اہم افراد کو ر یاض کے محل نما ’’ رٹزکارلٹن‘‘ ہوٹل ( جس کے ایک کمرے کا خرچہ ایک رات کے لئے 650 ڈالرز ہے) میں قید کرنے کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا کا حصہ بنیں، مگر سعودی حکومت نے واضح نہیں کیا تھا کہ کس فرد کو کس الزام کے تحت گر فتار کیا گیا ہے، تاہم اب تین ماہ گزرنے کے بعد مغربی میڈیا اور خود سعودی ذ رائع کی جانب سے ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں، جن کے باعث سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے اس کرپشن مخالف مہم پر کئی طرح کے سوالات نے جنم لیا ہے۔
4نومبر 2017ء کو شاہی خاندان اور کئی اہم کاروباری شخصیات کو اس ہوٹل میں رات گئے بلا یا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ محمد بن سلمان ان افراد سے کوئی اہم میٹنگ کرنا چا ہتے ہیں، مگر ان افراد کو اسی عالیشان ہوٹل میں گر فتار کر لیا گیا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یہ موقف اپنایا کہ یہ گرفتاریاں کئی عشروں سے جا ری کرپشن کو روکنے کے لئے کی جارہی ہیں۔ اس کرپشن کے باعث سعودی ریاست کو52ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے:اس لئے اب اس کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کئے جا ئیں گے۔ شاہی خاندان کے بعض افراد کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تا کہ وہ اپنے بینک اکا ونٹس اور اثاثوں کی درست معلومات فراہم کریں۔ پھر چند روز کے اندر ہی ان میں سے اکثر کو رہا کر دیاگیا۔۔۔سعودی عرب کے اٹارنی جنرل شیخ سعود ا لمجیب نے30جنوری کو بیان جا ری کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ 381سعودی شہریوں سے 106ارب ڈالر کی رقم بر آمد کی گئی ہے،مگر تاحال اس بات کی وضاحت نہیں کی جا رہی کہ شاہی خاندان کے گرفتار ہونے والے اکثر افراد کون تھے اور ان کی کل دولت یا اثاثے کتنے تھے،یہ اثاثے سعودی عرب میں تھے یا یورپ اور امریکہ میں بھی رکھے گئے تھے؟
سعودی عرب میں کرپشن کو بنیاد بنا کر شاہی افراد کے خلاف کا رروائی کرنے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے۔ سعود ی عرب میں 1963ء میں اس وقت کے ولی عہد (جو بعد میں شاہ بن گئے اور انہیں ان کے بھتیجے نے شہید کردیا) فیصل بن عبدالعزیز نے بھی اپنے سوتیلے بھائی شاہ سعود اور ان کے حامیوں کے خلاف کرپشن اور نا اہلی جیسے الزامات لگا کر اختیارات اپنے ہا تھ میں لے لئے تھے، اس لئے سعودی عرب میں شاہی حکومت کی جانب سے اپنے ہی خاندان کے افراد کی گرفتاریاں کوئی نئی بات ہرگز نہیں ، تاہم سعودی عرب کی تاریخ اور سیاست کو سمجھنے والے تمام مورخین اور تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شاہ فیصل سعودی عرب کے معاشی اور سماجی نظام میں حقیقی اصلاحات لانے کے خواہاں تھے۔ شاہ فیصل کے دور میں سعودی عرب میں جہاں معاشی معا ملات میں سخت ڈسپلن قائم کیا گیا ، غلامی جیسے ایک غیر انسانی ادارے کوختم کیا گیا، شاہ فیصل کی بیوی عفت نے اپنے خاوند کو خواتین کی بہبود کے لئے کئی طرح کی پا لیسیاں بنانے پر قائل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ فیصل کے دور کو سعودی عرب کے مخصوص معروض میں ایک طرح کا اصلاحاتی دور قرار دیا جا تا ہے ۔
دوسری طرف موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی بظا ہر بہت سی معاشی اور سماجی اصلاحات متعارف کر وانے کے لئے جو کوشش کر رہے ہیں( انہوں نے بعض نمائشی اصلاحات متعارف بھی کر وائیں)۔۔۔ ان میں بہت زیا دہ ابہام پا یا جا تا ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ کرپشن کے خلاف مہم کے مقاصد بھی سیاسی نوعیت کے تھے۔اگر سعودی عرب میں حقیقی طور پر کرپشن کے خلاف مہم شروع کی گئی تھی تو پھر سعودی حکومت کو واضح کرنا چا ہیے تھا کہ شاہی خاندان کے کس فرد نے کتنی لوٹ مار کی اور لوٹ مار کرنے پر ان افراد کو واضح طور سزا دی جاتی نہ کہ لوٹی ہوئی دولت کا عشر عشیر لے کر ان کوچھوڑ دیا جا تا۔شاہی خاندان کے کرپٹ شہزادوں کے خلاف تفصیلات جاری نہ کر نے سے اس شک کو تقویت مل رہی ہے کہ سعودی حکومت بہت سے معا ملات کو چھپا نا چاہ رہی ہے اور یہ معاملہ صرف کرپشن کا نہیں، بلکہ شاہی خاند ان کے اندر پھوٹ کو واضح کر رہا ہے۔
گز شتہ سال نو مبر میں شاہی خاندان کے جن ارکان کو گر فتار کیا گیا، ان میں 30افراد کی گرفتاری کو اہم قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سب سے اہم اور با اثر شخصیت ’’الولید بن طلال‘‘ کی تھی۔ شہزادہ ’’الولید بن طلال‘‘ کو مشرق وسطیٰ کا امیر ترین فرد بھی کہا جا تا ہے۔ ظاہر ہے کہ سعودی حکومت میں ہر طرح کے جائز و نا جا ئز اثرو رسوخ کو استعمال کئے بغیر ’’الولید بن طلال‘‘ کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے امیر ترین شخص بنتے اور یورپ اور امریکہ میں اربوں ڈالر کی جا ئیداد بنا سکتے۔
اب گزشتہ ماہ الولید بن طلال کو بھی 6ارب ڈالر لے کررہا کر دیا گیا ہے( جو ان کی کل دولت کا عشر عشیر بھی نہیں) الولید بن طلال اپنے ایک انٹر ویو میں کہہ چکے ہیں کہ ان کو کسی کرپشن پر نہیں، بلکہ ’’ غلط فہمی ‘‘کی بنا پر گر فتار کیا گیا تھا۔اسی طرح شاہی خاندان کے ایک اہم فرد اور شاہ سلمان کے وزیر ابراہیم العصاف کو بھی گر فتار کیا گیا، ان پر اربوں ڈالر کے وسائل کی لوٹ مار کا الزام تھا،ان کو بھی نہ صرف رہا کر دیا گیا ،بلکہ ایک مرتبہ پھر شاہ سلمان کا وزیر اور مشیر بنا دیا گیا ہے۔سعودی عرب میں کرپشن مہم کی ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب نو مبر میں اس مہم کا آغاز کیا گیا تو سعودی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ سعودی وسائل کی لوٹ مار سے بنائے گئے 800ارب ڈ الر بر آمد کئے جائیں گے۔دس دن بعد اعلان کیا گیا کہ 800ارب ڈالر نہیں، بلکہ 400ارب ڈالرز وصول کئے جائیں گے۔ اب سعودی حکومت کو یہ اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ اسے صرف 106ارب ڈالر ہی وصول ہو ئے ہیں۔ ’’فنانشل ٹائمز‘‘کی رپورٹ کے مطابق شاہ محمد بن سلمان کی کرپشن کے خلاف مہم اس لئے بھی ناکام رہی، کیو نکہ سعودی شاہی خاندان کے افراد نے لوٹ ما ر کا اکثر پیسہ اور اثاثے سعودی عرب میں نہیں، بلکہ یورپ اور امریکہ میں رکھے ہو ئے ہیں۔ سعودی حکومت کو معلوم ہے کہ وہ سعودی شہزادوں کے سوئس بینکوں میں پڑے اربوں ڈالر اور مغربی ممالک میں ان کی لوٹ مار کے اثاثوں کو واپس نہیں لا سکتی ،کیونکہ سعودی شاہی خاندان کے کئی سو افراد کے اثاثے مغربی ممالک میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسا کرنے کی صورت میں سعودی عرب کا شاہی نظام، جو پہلے ہی بحران کو شکار نظر آرہاہے، مکمل طور پر تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سعودی حکومت نے لوٹ مار سے حاصل کئے گئے 106ارب ڈالر کیش کے ذریعے نہیں، بلکہ سعودی عرب میں ان کرپٹ شہزاد وں کے اثا ثے ضبط کر کے حاصل کئے۔ سیاسیات کے طا لب علموں کے لئے سعودی و لی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی عرب میں معاشی اور سماجی اصلاحات متعارف کر وانے کے دعوے میں اس لئے دلچسپی پا ئی جاتی ہے، کیونکہ آج کے دور میں کسی ایسے ملک جہاں پر کلا سیکل انداز میں شاہی نظام مو جود ہو، کیا ایسے ملک میں حقیقی معاشی اور سماجی اصلاحات متعارف کر وائی جا سکتی ہیں؟ یقیناًموجودہ عہد میں یہ اپنی طرز کا ایک انوکھا تجر بہ ہی ہے۔
تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے با وجود آج سعودی عرب کو داخلی اور خارجہ سطح پر جن مسائل کا سامنا ہے ،ان میں شاہی خاندان کی ایسی پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے جو اس نے اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کے لئے اپنائیں۔سارے مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے لئے اپنی پراکسیز کی حمایت کے با عث آج عراق، شام ،لیبیا اور یمن میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے، جبکہ داخلی سطح پر سعودی عرب میں غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پانچ لاکھ چھ ہزار سعودی نوجوان 2015ء میں نو کری یا روزگا ر کمانے کی عمر میں داخل ہوچکے ہیں، مگر سعودی معیشت اتنے بڑے پیمانے پر ان نوجوانوں کو روزگار فراہم کر نے کے قابل نہیں۔ سعودی آبا دی کا آدھے سے زائد حصہ25سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ غیر جا نبدار ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سعودی معیشت میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کو معاشی دھارے میں شامل کرنے کی سکت نہیں۔ یوں یہ بے روزگار نو جوان کل کو اسلامی شدت پسندی کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ان حالات میں کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ محمد بن سلمان مشرق وسطیٰ اور اس خطے سے باہر اپنے اثرو رسوخ میں اضا فے سے زیا دہ اپنے داخلی مسا ئل کے حل کے لئے اپنے وسائل اور توجہ صرف کر تے اور حقیقی معا شی ترقی کے لئے حقیقی سیاسی اصلاحات بھی متعارف کرواتے؟