ذوالفقار چیمہ کی دو ٹوک باتیں
میرا محکمہ پولیس سے بہت پرانا تعلق چلا آ رہا ہے۔ میرے گاؤں میں اروتی پولیس اسٹیشن تقسیم سے پہلے سے قائم ہے۔ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اروتی میرے آبائی گاؤں نواب بھوتی کے ساتھ ملحقہ گاؤں ہے۔ زمینداری کی وجہ سے میرے بڑوں کا وہاں پر متعین پولیس افسروں سے کافی واسطہ رہتا تھا۔ یوں چھوٹی عمر سے ہی پولیس کے کارنامے کانوں میں پڑتے رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ آگے چل کر میرے پولیس سے تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ تقریباً ایک درجن کے قریب آئی جیز اور ڈی آئی جیز سے دوستی کا تعلق ہے۔ کچھ عرصے سے جناب ذوالفقار چیمہ سے بھی نیاز مندانہ تعلقات قائم ہیں اور وہ بڑی محبت سے ملتے ہیں۔ ہو سکتا ہے میری کتاب ’’پی ٹی وی میں مہ و سال‘‘پڑھ کر انہیں یہ احساس ہوا ہو کہ میری اور اُن کی سوچوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے کم از کم مجھے تو اُن کی کتاب پڑھ کر یہی تاثر ملا اگرچہ اُن کا دائرہ کار وسیع تھا۔ ایمانداری اور میرٹ کی ’’بیماری‘‘ انہیں بھی اپنے والد صاحب سے لگی اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
ذوالفقار چیمہ صاحب نے پولیس میں بڑی عزت کمائی اور اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہوئے۔معاشرے کی عملی خدمت میں تو ابھی تک مصروف ہیں ،لیکن خیالات، جذبات اور تجربات دوسرے لوگوں سے شیئر کرنے کے خیال سے انہوں نے اخبارات میں کالم لکھنے شروع کئے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے کالموں کو ایک کتاب کی شکل دی اور نام رکھا ’’دو ٹاک باتیں‘‘ بڑا صحیح عنوان تھا، کیونکہ انہوں نے اپنے کالموں میں ڈپلومیٹک انداز کبھی اختیار نہیں کیا، ہر بات کھل کر کی اور پورے یقین اور اعتماد سے کی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے وہی کیفیت اِن کے کالموں کے معاملے میں ہے۔کتاب حسب توقع بہت مقبول ہوئی اگرچہ یہ گلہ عام ہے کہ لوگ کتابیں نہیں پڑھتے، تاہم اس کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اب چیمہ صاحب نے ایک کتاب کی شکل میں کالموں کا دوسرا حصہ پیش کیا ہے اور نام رکھا ہے ’’دو ٹوک‘‘ نئی کتاب کے نام سے کم از کم میں مطمئن نہیں ہوا، نام کچھ اور ہونا چاہئے تھا۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ اگلی کتاب میں لفظ دو ٹوک نہیں ہوگا۔بہرحال یہ مصنف کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ کتاب میں کیا کچھ شامل کرے اور نام کیا رکھے۔
’’دو ٹوک‘‘ کی تقریب رونمائی پچھلے دنوں اسلام آباد میں ہوئی۔ کچھ دوستوں مسعود زاہد ، بشیر عابد اور جمیل چیمہ صاحب کے ساتھ میں نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹ کا کشادہ ہال تنگ پڑ رہا تھا، تقریب بڑی بھرپور رہی اور سبھی مقررین نے بڑی کام کی باتیں کیں اور چیمہ صاحب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ مہمان خصوصی راجہ محمد ظفرالحق نے تو کہا کہ چیمہ صاحب ہمارے وزیر داخلہ ہوتے تو بہت سے معاملات سنور جاتے۔ میں پچھلے ہفتے اتفاق سے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں میں نے اخبار میں دیکھا کہ الحمرا میں اتوار کی شام چیمہ صاحب کی کتاب کی رونمائی کی تقریب ہو رہی ہے۔ میں رہ نہیں سکا اور وہاں جا پہنچا، یہاں بھی وہی کیفیت تھی الحمرا کا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ مقررین بھی ماشاء اللہ چودہ پندرہ تھے۔ اُن میں جناب مجیب الرحمن شامی، سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات اور ہمارے مہربان جناب منصور سہیل، ڈاکٹر صغریٰ صدف اور علامہ اقبال کے پوتے جناب ولید اقبال کے علاوہ کئی سینئر افسران اور دانشور شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس اللہ نواز نے صدارت کی۔
سب مقررین نے اپنے اپنے انداز میں بڑی خوبصورت باتیں کیں ،لیکن شاید میلہ ولید اقبال نے لوٹ لیا۔ باقی مقررین کی طرح ولید اقبال صاحب نے کتاب بڑے ذوق شوق سے پڑھی تھی۔حالانکہ عام طور پر ایسی تقریبات میں تقریر کرنے والوں نے اکثرکتاب کا صرف فلیپ پڑھا ہوتا ہے۔ انہوں نے مختلف کالموں سے اقتباسات پڑھ کر بہت اچھی باتیں کیں اور آخر میں علامہ کی ایک نظم بہت خوبصورت انداز میں سنا کر تو گویا میلہ ہی لوٹ لیا۔ چیمہ صاحب اقبال کے عاشقوں میں ہیں۔ اگرچہ آجکل کے زمانے میں اقبال سے محبت کچھ آؤٹ آف فیشن ہو چکی ہے، لیکن چیمہ صاحب نئے نئے فیشن سے متاثر ہونے والی شخصیت نہیں۔ انہوں نے اقبال کے پیغام کو عام کرنے کے خیال سے ایک اقبال کونسل بھی بنائی ہوئی ہے جس کے تحت بڑے اچھے فنکشن ہوتے رہتے ہیں۔
جسٹس اللہ نواز صاحب نے بھی خوب رنگ جمایا، لیکن اُن کی باتیں روایت سے کچھ ہٹ کر تھیں۔ شاید اُن کا خیال تھا کہ معاشرے میں اونچ نیچ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے قانون کی حکمرانی قائم کرناشاید کافی مشکل ہے۔ انہوں نے معاشرے میں منافقت کا بھانڈا بڑے خوبصورت انداز میں پھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ جیسے چیمہ صاحب میرٹ اور سچائی کی باتیں کرتے ہیں اِسے بہت لوگ سراہتے ہیں، لیکن ان کی پیروی کے لئے کوئی تیار نہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ معاشرے میں اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اس طرح کی اکیلی آوازوں سے کوئی عملی فرق پڑنا مشکل نظر آتا ہے۔ کچھ نااُمیدی اور قنوطیت کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ تقریروں اور کتاب سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ اس پر بہت سی تالیاں بجیں، لیکن پتہ نہیں وہ تالیاں سنجیدہ تھیں یا مزاح کا رنگ لئے ہوئے تھیں۔ جسٹس صاحب کی باتوں سے جزوی اتفاق تو کیا جا سکتا ہے ،لیکن ان میں پورا سچ نہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اپنے حصے کی شمع جلائے رکھنا چاہئے۔ تو وہ بھی بے معنی بات نہیں افراد سے ملکر ہی قافلہ بنتا ہے اور قوم تشکیل پاتی ہے اور پھر کتاب کی اثر آفرینی سے انکار بھی ممکن نہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنی کتاب ’’باز دید ‘‘میں ڈاکٹر وزیر آغاز کے خاکے میں ایک معنی خیز بات لکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر وزیر آغاز نے کالج کی تعلیم جھنگ میں حاصل کی۔ وہ ایک ہونہار طالب علم تھے اس لئے اُن کے ایک ٹیچر عربی کے جید عالم ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق نے وزیر آغا سے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ تم آگے چل کر کتابیں لکھو گے پھر انہوں نے ایک پتے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ کتاب سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالی بھی ایک کتاب کے ذریعے ہی اپنی مخلوق سے ہمکلا م ہوئے تھے۔ کتابوں اور تقریروں کا شاید کوئی فوری نتیجہ تو نہ نکلے ،لیکن یہ بالکل بے اثر بھی نہیں۔ پانی کا ایک قطرہ بھی مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو پتھر پر بھی نشان پڑ جاتا ہے۔ یہاں تو مخاطب اللہ کی مخلوق ہے۔