راؤ انوار کیا افسانوی کردار ہے؟
بڑی امید تھی کہ معطل ایس ایس پی راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوجائیں گے، انہیں ضمانت بھی دی گئی تھی اور پیش ہونے پر جے آئی ٹی بنانے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا، مگر راؤ انوار آخر پویس کا ایک کائیاں افسر ہے، اس نے خطرات کو بھانپ لیا اور شکنجے میں نہ آیا۔ اب سپریم کورٹ نے اسے گرفتار نہ کرنے کا حکم واپس لے لیا ہے اور اکاؤنٹس بھی منجمد کرنے کا حکم دیا ہے، پتہ نہیں اب راؤ انوار کے اکاؤنٹس میں کچھ ہے بھی یا نہیں؟ اتنے دنوں میں تو اس نے سب کچھ برابر کردیا ہوگا۔ یوں تو ہم ہر روز نت نئے ڈرامے دیکھتے ہیں، لیکن جو ڈرامہ راؤ انوار نے دکھایا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایک شخص جو اس دنیا میں موجود ہے، واٹس اپ بھی استعمال کررہا ہے اور خطوط بھی لکھتا ہے، شاید کسی خفیہ نمبر سے فون بھی چلا رہا ہو، وہ کسی جنگل میں غائب نہیں ہوا، شہر میں موجود ہے، لیکن مجال ہے کہ اس کا پتہ چل سکے۔ مجھے تو یہ سو فیصد ملی بھگت لگتی ہے، وگرنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اتنی زبردست ٹیکنالوجی کے باوجود راؤ انوار کو ڈھونڈا نہ جاسکے۔ امریکہ تو غاروں میں چھپے دہشت گردوں کو ڈھونڈ لیتا ہے اور ان پر ڈرون حملہ کرکے مار بھی دیتا ہے، مگر ہم ایک ایسے شخص کو، جس کی ہر جگہ شناخت موجود ہے اور جسے اب ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے، تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ تو بڑی ہزیمت کی بات ہے، صرف سندھ پولیس کے لئے نہیں، بلکہ تمام خفیہ ایجنسیوں اور ملک میں پھیلے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے لئے بھی۔۔۔ اس پر بڑی تنقید ہورہی ہے، خاص طور پر مسلم لیگی حلقوں کی جانب سے کہ راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا، اس کے صرف ایک خط پر اس کے ساتھ اتنی رعایت کیوں کی گئی، ایسا کہنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، اس وقت پہلا ٹاسک یہ ہے کہ کسی طرح راؤ انوار کو خفیہ جگہ سے باہر نکالا جائے، وہ ایک بار سامنے آجائے تو پھر کسی ضمانت کے بغیر آزاد نہیں رہے گا، یوں ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
مجھے راؤ انوار کو جان بوجھ کر گرفتار نہ کرنے کا شبہ اس لئے ہے کہ اس جیسا شخص زیادہ عرصہ دنیا سے کٹ کر رہ نہیں سکتا، مجھے برسوں پہلے لاہور میں رونما ہونے والا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جس پر میں نے ایک تفصیلی فیچر بھی لکھا تھا،جو روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔۔۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ریلوے پولیس ہیڈ کوارٹر میں تعینات ایک پولیس کانسٹیبل محمد نواز نے ریلوے پولیس ملازمین کی تنخواہوں کے لئے جمع چار کروڑ کی رقم رات کے وقت ملازمین کو نشہ آور کھانا کھلا کر لوٹی اور فرار ہوگیا۔
اس وقت لاہور پولیس کے ایس ایس پی خالد فاروق مرزا تھے۔ صبح جب ملازمین ڈیوٹی پر آئے تو انہوں نے سب کو بے ہوش پایا، رقم کا پتہ کیا تو وہ غائب تھی۔ ریلوے پولیس کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی واردات تھی، رات کی ڈیوٹی کا چارٹ دیکھا گیا تو باقی سب ملازمین بے ہوش تھے، صرف محمد نواز غائب تھا، اب اس کا کھوج نکالنے کی کوشش شروع کی گئی، لینڈ لائن فون کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو وہاں سے رات کے وقت ایک موبائل نمبر پر کال کی گئی تھی، اس نمبر کو ٹریس کیا گیا تو وہ ایک ٹیکسی والے کا تھا، اسے پکڑا گیا تو اس نے بتایا کہ رات کے وقت ایک سواری کو شیخوپورہ چھوڑ کر آیا ہے، اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ محمد نواز کو جانتا ہے اور پہلے بھی اسے شیخوپورہ لے جاتا رہا ہے، اس اطلاع پر محمد نواز کو ڈھونڈنے کے لئے شیخوپورہ میں اس کے گھر چھاپہ مارا گیا، مگر وہ موجود نہیں تھا، رکشے والے سے اس کا نمبر لے کر اس کی لوکیشن پتہ کی گئی تو وہ کراچی کے قریب کی تھی، ریڈنگ پارٹی تیار ہوئی، اور کراچی پہنچ گئی، جس ٹاور کی لوکیشن آرہی تھی، اس کے پاس ایک ہوٹل تھا، وہاں چھاپہ مارا گیا تو انتظامیہ نے بتایا کہ محمد نواز آج صبح ہی ہوٹل چھوڑ کر گیا ہے۔
اسی دوران محمد نواز نے اپنے ایک قریبی دوست کو، جو ریلوے پویس کا ہی ملازم تھا، سن گن لینے کے لئے فون کیا، اس نے یہ بات ایس ایس پی خالد فاروق مرزا کو بتادی، انہوں نے اسے کہا کہ وہ محمد نواز سے دوست بن کر رابطہ جاری رکھے اور اس کا پتہ معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ پولیس کانسٹیبل نے محمد نواز کو فون کیا تو وہ بند تھا، اگلے روز اس کا فون آیا، اس نے بتایا کہ وہ صرف اسے فون کرنے کے لئے سیٹ آن کرتا ہے، اس لئے وہ خود کال نہ کیا کرے۔
اس نے کانسٹیبل کو یہ لالچ بھی دیا کہ وہ اسے ایک لاکھ روپے انعام اور ہنڈا 125 بھی لے کر دے گا۔ پولیس کانسٹیبل ایس ایس پی خالد فاروق مرزا کی فرضی اطلاعات اسے دیتا رہا۔ ایک دن محمد نواز نے اسے فون کیا اور ترنگ میں آکر یہ بتایا کہ اس نے نئے بال لگوالئے ہیں، اب تو پولیس کا باپ بھی اسے نہیں پکڑ سکتا، تب اس کی لوکیشن بہاولپور کی ملی، پولیس پارٹی کو بہاولپور روانہ کیا گیا، خالد فاروق مرزا ملتان آئے اور مجھے بھی بہاولپور اپنے ساتھ لے گئے، وہاں مصنوعی بال لگانے والے ایک ہی ڈاکٹر تھے، جن کا نام محمد امین تھا، ان کے کلینک میں جب محمد نواز کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں تو انہوں نے کہا کہ محمد نواز کو انہوں نے بال ضرور لگائے ہیں، لیکن وہ اس کا پتہ نہیں بتائیں گے، کیونکہ وہ میرا کلائنٹ ہے، وہ ڈاکٹر ایک با اثر خاندان سے تھے۔ اس لئے خالد فاروق مرزا کا خیال تھا، انہیں مجبور نہ کیا جائے۔ اگلے روز محمد نواز نے اسی دوست کانسٹیبل کو فون کرکے بتایا کہ کل میرے ٹانکے کھل جائیں گے، پھر میں نئے حلئے کے ساتھ گھوموں گا، تمہارا مرزا میری ہوا تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اس اطلاع پر اس سڑک پر جگہ جگہ سادہ لباس میں پولیس والے کھڑے کردیئے گئے، جہاں ڈاکٹر کا کلینک تھا۔ میں اور مرزا صاحب بھی دیوار کی اوٹ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھے تھے، اتنی دیر میں محمد نواز سر پر کپڑا باندھے موٹر سائیکل پر آتا دکھائی دیا، پولیس والوں نے تیزی کے ساتھ جپھا ڈال کر پکڑ لیا، اس کے گھر سے ساڑھے تین کروڑ روپے برآمد کئے گئے ،باقی پچاس لاکھ میں سے اس نے 30 لاکھ کا مکان اور باقی کے زیورات خرید لئے تھے۔
مجھے یہ سچی کہانی اس لئے یاد آئی کہ جیسی غلطیاں محمد نواز نے کیں، ویسی راؤ انوار بھی ضرور کررہا ہوگا۔ یہ ممکن ہے کہ اپنے تجربے اور شاطرانہ پن کی وجہ سے اس کی غلطیوں کا تناسب کچھ کم ہو، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ غلطیاں کر ہی نہ رہا ہو۔ ظاہر ہے وہ صرف ٹی وی کے ذریعے تو حالات سے با خبر نہیں رہ رہا، اس کا اپنا بھی نیٹ ورک ہوگا جو اسے پل پل کی خبر دیتا ہوگا، حیرت ہے کہ پولیس اس کے ساتھ ساتھ وہ نیٹ ورک بھی نہیں پکڑ سکی۔ میرے نزدیک یہ ناممکن سی بات ہے، اس کی تھیسز وہی ہے جس کی طرف سب اشارہ کررہے ہیں، راؤ انوار کسی ایسی جگہ بیٹھا ہے، جہاں قانون کے پر جلتے ہیں، جہاں پولیس بھی بے بس ہوجاتی ہے، اشاروں کنایوں میں تو سپریم کورٹ بھی یہ کہہ چکی ہے اور رانا ثناء اللہ تو باقاعدہ نام لے کر بتا چکے ہیں کہ راؤ انوار کہاں چھپے ہوئے ہیں؟ راؤ انوار نے اپنا کیس خود ہی خراب کرلیا ہے، الزامات کا مردانہ وار سامنا کرنا چاہئے تھا، ایک وقت تھا کہ جب اس کی حمایت میں جلوس نکلتے تھے، لوگ مطالبہ کرتے تھے کہ راؤ انوار کو ہٹایا نہ جائے، اس طرح بھگوڑا بن کر تو اس نے اس بات کو درست تسلیم کرلیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کے قتل میں اس کا سو فیصد ہاتھ ہے۔ یہ روپوشی آخر کب تک برقرار رہ سکتی ہے؟ ایسا تو ممکن نہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ کیس پرانا ہوجائے اور کسی کارروائی کے بغیر ختم ہوجائے۔ یہ تو اب بہت بڑا ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔
سپریم کورٹ نے بہت بڑی سہولت فراہم کی تھی کہ راؤ انوار ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں، ان کے لئے ایک جے آئی ٹی بن جاتی اور اگر وہ واقعی بے گناہ تھے تو سرخرو ہوکر دوبارہ میدان میں آجاتے، مگر وہ نہیں آئے یا پھر ان کے سرپرستوں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا۔چیف جسٹس نے راؤ انوار کی عدم پیشی پر چاروں صوبوں کے آئی جیز سے کہا ہے کہ وہ اس کی تلاش میں پورا زور لگا دیں، اس لئے اب راؤ انوار کو ڈان کہنا چاہئے جو کسی طرح قابو نہیں آرہا۔ راؤ انوار سے پہلے کراچی میں ایس ایس پی چودھری محمد اسلم ہوا کرتے تھے، ایک دبنگ پولیس افسر جنہیں دہشت گردوں نے نشانہ بنا کر شہید کردیا تھا۔ کہانیاں تو ان کے حوالے سے بھی بہت مشہور تھیں، تاہم دہشت گردوں کا نشانہ بننے کے بعد ان کے سب عیب اسی میں چھپ گئے۔ راؤ انوار پر تو سوا چار سو انسان مارنے کا الزام ہے، یہ الزام اس طرح تو نہیں دھل سکتا کہ وہ منظر سے غائب ہوجائیں، یا پھر وہ لوگ راؤ انوار کو منظر عام پر نہیں آنے دے رہے، جن کے وہ آلۂ کار بنے رہے، اگر دوسری بات صحیح ہے تو راؤ انوار کی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے، ایک زندہ راؤ انوار کی اشد ضرورت ہے تاکہ کراچی کے بارے میں سچ سامنے آسکے، وگرنہ افسانوی کہانیاں اس شہر کے لوگوں کا پیچھا کرتی رہیں گی۔