شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 34

Feb 17, 2018 | 01:24 PM

ڈوب میں کوئی بیس پچیس کچے مکانات ہیں ،جن کی چھتیں یا تو پھوس کی ہیں یا کچی مٹی کی۔گاؤں کی تین سمتوں میں ۔۔۔یعنی شمال،مشرق ومغرب میں۔۔۔دور دور تک کھیت پھیلے ہوئے ہیں۔جنوب کی طرف جنگل کا وہ قطعہ ہے،جس کا سلسلہ پھیلتے پھیلتے کھنڈر تک جا پہنچتا ہے۔اس طرف گاؤں سے بالکل ملا ہوا ایک عمیق نالہ شرقاًغرباً گزرتا ہے۔نالے کے جنوبی کنارے پر وہی جنگل ہے ،جس کا میں تذکرہ کرچکا ہوں اور شمالی کنارے پر گاؤں ہے۔نالہ عموماًخشک رہتا ہے۔صرف بارش کے دنوں میں قلیل عرصے کے لیے بھر جاتا ہے۔
نالے کے شمالی کنارے پر کوئی پچاس گز ہٹ کر نوشاہ کا مختصر مکان ہے،جس کے پر آمدے کا رخ نالے کی طرف ہی ہے اور اس پر چھپر پڑا ہے۔اس مکان میں ایک بوڑھی عورت نگران کے طور پر مقیم تھی۔دوپہر کے وقت وہ عورت اور گاؤں کی دوسری دو عورتیں کسی ضرورت سے پانی کے لوٹے ہاتھوں میں لیے نالے کے اندر گئیں اور ابھی پوری طرح اتری بھی نہیں تھیں کہ چیخیں مار کر الٹے قدموں واپس بھاگیں۔نالے کے اندر ایک شیر نے گائے ماری تھی اور وہ اسے بیٹھا کھا رہا تھا۔عورتوں کی چیخ پکار پر گاؤں والے نالے کی طرف گئے تو شیر نکل کر بھاگ گیا۔

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
 بعدمیں تو وہ ڈوب کے مویشیوں کے لیے قہر بن گیا۔میرے پہنچنے تک اس نے وہاں کے نصف مویشیوں کا صفایا کردیا تھا۔یہ شیر اسی کھنڈر میں رہتا تھا،جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے اور غالباًاسی جوڑے میں سے تھا،جسے میں نے دیکھا تھا۔مادہ اور بچے کیا ہوئے ،اس کا کسی کو علم نہیں۔
ڈوب پہنچ کر نوشاہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔
’’آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میں آپ کو یہاں کس لیے لایا ہوں۔۔۔!‘‘
’’مجھے کیا معلوم ۔۔۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’کوشش کیجیے۔۔۔۔‘‘
’’ آپ نے اطراف کے جنگل میں کوئی بڑا چیتل یا سانبھر دیکھا ہوگا۔۔۔۔‘‘
’’یہ بات نہیں۔۔۔۔‘‘ وہ اب بھی بڑے پر اسرار انداز سے مسکرارہے تھے۔
’’تو پھر سکون کے ساتھ شطرنج کھیلنے کو دل چاہ رہا ہوگا۔۔۔۔‘‘
نوشاہ ہنس دیے’’جی‘نہیں ۔۔۔‘‘
’’پھر تو اس معمے کو آپ ہی حل کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے گاؤں کے ایک شخص کو طلب کیا اور اس کو میرے سامنے پیش کرکے خود ہی سوال کیا۔۔۔۔
’’رحمو۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’جی ‘حضور۔۔۔۔!‘‘
’’گاؤں کے کتنے مویشی اس شیر نے ہلاک کیے ہیں؟‘‘
’’جناب ! تقریباًپچاس۔۔۔۔‘‘
’’کتنے عرصے میں۔۔۔۔؟‘‘
’’ کوئی ڈیڑھ سال کے عرصے میں۔۔۔۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ بات میری توجہ کومبذول کرنے کے لیے تھی۔
’’مویشی خور شیر ۔۔۔!‘‘میں بولا۔
’’جی‘ہاں۔۔۔۔!اور اسی وجہ سے آپ کو لایا ہوں۔‘‘
’’تو آپ وہیں بتا دیتے۔۔۔۔‘‘
’’میں نے اس لیے نہیں بتایا کہ آپ موسم خشک ہونے کا انتظار کرتے اور اس عرصے میں ممکن ہے کہ شیر آدم خوری شروع کردے۔‘‘
میں چپ ہوگیا۔۔۔وہ تو اچھا ہوا کہ چلتے وقت میں نے بالکل غیر ارادی طور پر اپنی چار سو پچاس بور کی رائفل اٹھالی تھی ورنہ نوشاہ کی ساری ترکیب دھری رہ جاتی۔تاہم بارش کے اس زمانے میں شیر کے شکارپر جانے کو دل تیار نہیں ہوتاتھا،لیکن نوشاہ کی خاطر بھی منظور تھی۔بہرحال گاؤں کے دوچار بڑے بوڑھوں کو بلا کر شیر کے بارے میں مَیں نے مزید معلومات حاصل کیں تو اس نتیجے پر جا پہنچا کہ یہ شیر اس جوڑے میں سے نہیں ،جسے میں دو سال قبل دیکھ چکا ہوں۔لیکن سب کا یہی کہنا تھا کہ کھنڈر میں ہی رہتا ہے اور کھنڈر اس مقا م سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔
اگر یہ بیان درست تھا تو وہ جوڑا کہا گیا،جس کے پانچ بچے میں نے دوسال قبل دیکھے تھے۔وہ جوڑا جوان تھا اور یہ شیر جس نے مویشی خوری شروع کردی تھی،بوڑھا تھا۔یہ بھی ممکن نہیں کہ اس بوڑھے نے جوان شیروں کے جوڑے کو ان کی اقامت گاہ سے مار بھگایا ہو۔اس کے باوجود ان لوگوں کے بیان پر یقین بھی کرنا پڑا۔۔۔۔
’’اس شیر کوہانکے سے نہیں مارا جاسکتا۔۔۔۔‘‘میں نے کہا۔
’’کیوں ۔۔۔۔؟‘‘نوشاہ نے سوال کیا۔
’’اس لیے کہ وہ شکار کے بعد کھنڈرہی واپس جاتا ہوگا۔اور سو سَو اسَوآدمیوں کو جمع کرکے کھنڈر تک لے جانا اور ہانکا کرانا مشکل ہے۔۔۔۔‘‘
’’سَو سَوا سَو آدمی تو گاؤں میں ہیں بھی نہیں ۔۔۔۔۔‘‘ نوشاہ بولے۔
’’تو پھر ہانکے کا سوال ہی نہیں ۔۔۔۔‘‘
’’گاؤں میں کل کتنے آدمی ہوں گے؟‘‘
’’پچیس تیس۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بس۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔۔۔۔‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا ۔اب یہ صورت تھی کہ اس شیر کے پسندیدہ مقام یا گزرگاہ پر کھلگا باندھا جائے اور مچان پر بیٹھ کر اسے نشانہ بنایا جائے۔۔۔۔اور یہ پسندیدہ جگہ کھنڈررات کے قریب ہی کسی جگہ ہوسکتی تھی۔لیکن وہ زمانہ مچان پر بیٹھنے کے لیے ناموزوں تھا۔۔۔کیونکہ مالوے میں اس زمانے میں رات کو خاصی ٹھنڈ ہونے لگتی ہے۔۔۔۔اور چاندنی راتیں بھی نہیں تھیں۔اندھیری رات میں یہ امید کرنا کہ نشانہ صحیح لگے گا ،عقل مندی سے بعید ہے۔
میں نے نوشاہ کویہ سب باتیں سمجھانے کی کوشش کی ،لیکن وہ مصر تھے کہ خدا کے لیے گاؤں والوں کو اس موذی کے وبال سے نجات دلاؤ۔طوعاًوکرہاً مجھے اس مہم کے لیے تیا ر ہونا پڑا۔ یہ میری زندگی کی پہلی اور آخری ایسی مہم تھی،جس پر میں بدولی،ناخوشی اور پسندیدگی کے ساتھ آمادہ ہوا۔۔۔۔
مجھے اس وقت کئی فکریں لاحق تھیں۔۔۔ایک تو یہ کہ میرے پاس چار سو پچاس ایکسپریس کے علاوہ دوسری رائفل نہیں تھی ۔بڑے شکار میں زائد رائفل کا ہونا ضروری ہے۔نوشاہ کے پاس صرف بارہ بور کی دو نالی بندوق تھی۔دوسرے میرے ساتھ میرا کوئی معتبر ملازم نہیں تھا۔تیسرے میں بارش کے زمانے میں ہمیشہ گھٹنوں تک کے فل بوٹ پہنتا ہوں،جن پر سانپ کے کاٹے کا اثر نہیں ہوتا۔وہ میں لایا نہیں تھا۔چوتھے یہ کہ جب رات کو میں مچان پر بیٹھتا ہوں تو ہمیشہ کافی تعداد میں پان ،ٹافی ،چاکلیٹ یا کینڈی وغیرہ پاس رکھتا ہوں تاکہ نیند کی صورت میں ان سے شغل کرتا رہوں۔
(جاری ہے )

مزیدخبریں