جمہوری تماشا۔۔۔
تحریر:فیاض احمد
قول و فعل کا تضاد سیاسی جماعتوں اور انکے لیڈران کا ورثہ و اثاثہ بن چکا ہے۔بلاول زرداری ہوں یا مریم نواز ، عمران خان ہوں یا اسفند یار ولی ، مولانا فضل الرحمٰن ہوں یا فاروق ستار صاحب؟؟ سب جمہوریت ، جمہوریت کا گیت الاپتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں اور یقیناًہیں۔اگر بغور اسکی وجوہات تلاش کریں تو معلوم ہو گا کہ سیاسی جماعتیں خود جمہوری کلچر سے تہی دست اور جمہوری سوچ اور فکر سے عاری ہیں ۔قارئین ذرا غور فرمائیں کہ کونسی پارٹی یا قیادت ایسی ہے جو جمہوریت کے مروجہ اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے یونین کونسل کی سطح سے اپنے کارکنوں اور عہدیداروں کو جمہوری قدروں اور اصولوں سے روشناس کروانے کی سعی کرتی ہے؟؟؟؟ آپ صرف سوچتے ہی رہیں گے آپکو جواباً مایوسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا۔آجکل نواز شریف ووٹ کے تقدس کی مالا جپتے نظر آتے ہیں،انہیں عدالتی حکم پر وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے کے بعد وہ ووٹر یاد آ گیاجو صاف پانی کی عدم فراہمی پر مہلک بیماریوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے،جو ہسپتالوں کی کمی کی وجہ سے ٹھنڈے فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا ہے،جو اچھے مستقبل کے لیے پرائیویٹ سکولز اور یونیورسٹیوں میں اپنی جمع پونجی لوٹا رہا ہے۔
نواز شریف کو اپنی بے حساب دولت کا حساب مانگے جانے پر وہ ووٹ اور پرچی والے یاد آ گئے جو ڈاکووں چوروں ، وڈیروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر خجل خوار ہو رہے ہیں۔4 سال مرکز اور ساڑھے 9 سال پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکمران رہنے کے باوجود نواز شریف اور انکی جماعت ووٹر کی زندگی نہ بدل سکی،اس میں بہتری نہ لا سکی،لوگوں کو جمہوریت کے بہتر نظام ہونے کا یقین نہ دلا سکی لیکن جونہی معاملہ انکی اپنی دولت کے حساب کا آیا،جونہی انہیں مسندِ اقتدار سے نیچے اتارا گیا، ان کو اس ووٹ کا تقدس یاد آیا جس ووٹ سے یہ اسمبلی میں گئے اور کبھی اسمبلی کا منہ تک نہ دیکھااور جس پارلیمنٹ کے تقدس کی قسمیں کھا رہے ہیں اس کے فلور پر کئے گئے خطاب کو ایک سیاسی بیان قرار دے رہے ہیں،یہ ووٹ کا تقدس ہے یا توہین ؟؟؟جمہوریت کے دعویداروں کو یقیناًاس پر غور کرنا ہو گا، اگر پارلیمنٹ مقدس ادارہ ہے تو کیسے وزیر اعظم نے اسی پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی تقریر کو سیاسی بیان قرار دے کر اس کے تقدس کی نفی کی؟کیسے ان کی جماعت کے لوگ عدالتی فیصلے کے خلاف بل پاس کرتے اور ریاستی اداروں کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں؟؟۔
پانامہ فیصلے سے اختلاف ممکن ہے لیکن کیا کوئی اخلاقی قدریں جلسوں اور نجی محفلوں میں عدالتی فیصلوں کی تضحیک کی اجازت دیتی ہیں؟پاکستان کے سیاسی نظام کو برباد کرنے میں آمریت کا ہاتھ ہے لیکن جب جب سیاستدان اقتدار میں آئے جمہوری قدروں کو پروان چڑھانے کی بجائے انہوں نے ذاتی دشمنیوں اور اناؤں کو سامنے رکھااور جمہوری اصولوں کا خون کر کے اپنے کاروبار اور رشتہ داروں کی فلاح کے لیے جدو جہد کی جبکہ وہ ووٹر جو انہیں مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں، وہ غریب سے غریب اور پست سے پست تر ہوتے جا رہے ہیں،جب جب اقتدار ان کے ہاتھوں سے پھسلنے لگتا ہے انہیں جمہوریت یاد آتی ہے۔
مونس الہٰی ، حمزہ شہباز ، بلاول اور مریم جمہوریت کی کون سی تعریف پر پورا اُترتے ہیں؟؟؟اعتزاز احسن ، رضا ربانی ، ندیم افضل چن اور دوسرے بہت سے جید سیاستدان بلاول کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں،ان کی عقل ، تعلیم اور تجربہ جمہوریت کے کس اصول کے تحت ایک بچے کے سامنے سرنگوں ہے؟؟؟جس کو ٹھیک سے اردو بھی بولنا نہیں آتی۔وزیر اعظم میاں نواز شریف بنتے ہیں لیکن پارٹی کی زیادہ تر سرگرمیاں محترمہ مریم نواز دیکھتی اور چلاتی ہیں،دنیا میں کون سی جمہوریت اس طرح کی سول آمریت کی اجازت دیتی ہے؟؟؟
انہیں سوچنا ہو گا،الزامات کی سیاست سے باہر آنا ہو گا۔پاکستان اکیسویں صدی کے الیکٹرانک میڈیا اور انٹر نیٹ کے دور میں چلا گیالیکن سیاستدان 30 سال پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں،اب عام لوگ بھی جمہوریت کی تعریف پڑھ سکتے اور سمجھ سکتے ہیں لیکن جمہوریت کے دعویداروں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں کہ شاید خطرہ ٹل جائے ۔ طیب اردگان جیسی عزت کی طلب مگر کردار سے انکار۔حضورِ والا ! یہ کرداری اور تنظیمی گراوٹ جمہوریت کو کمزور کرے گی مضبوط نہیں،عام ورکر اور کارکن کو جمہوریت کے حسن کے مطابق نہ صرف اعلیٰ سیاسی عہدیدار بنانا ہو گا بلکہ سیاست کو خاندانوں اور شخصیات سے نکال کر ادارے کی شکل دینا ہو گی ورنہ عوام اس جمہوریت کو تماشاہی سمجھیں گے جس میں انکی بہتری کا سامان نہ ہو۔(اللہ پاکستان کو سلامت رکھے! (امین)
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔