زبانِ یارِ من ترکی
اوائل 1985ء میں جب میری پوسٹنگ ہیڈکوارٹر 16انفنٹری ڈویژن کوئٹہ سے جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی میں ہوئی تو میرا رینک میجر تھا جسے فوج میں جنرل سٹاف آفیسر گریڈ ٹو، (GSO-2) کہا جاتا ہے۔ میرے ڈائریکٹوریٹ کو اس وقت ٹریننگ پبلی کیشنز اینڈ انفرمیشن (TPI&Dte) کہا جاتا تھا۔ یہ ڈائریکٹوریٹ جس برانچ کا حصہ تھا وہ آئی جی ٹی اینڈ ای (IGT &E) برانچ کہلاتی تھی (اور ہے) جس میں کئی اور ٹریننگ ڈائریکٹوریٹ بھی ہیں۔ کچھ برسوں بعد اس کا نام بدل کر ڈاکٹرین اینڈ اویلوایشن ڈائریکٹوریٹ۔ (D & E Dte) رکھ دیا گیا۔آج بھی اس کو ڈاکٹرین ڈائریکٹوریٹ ہی کہا جاتا ہے۔ اس میں فوج کے ڈاکٹرین وغیرہ پر کام کیا جاتا ہے۔ یہ آئی جی ٹی اینڈ ای برانچ کا ایسا ڈائریکٹوریٹ ہے جس میں افسروں کی تعداد GHQ کے باقی ڈائریکٹوریٹس کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔ اس برانچ کو اس وقت (1985ء میں) میں فوج کے ایک میجر جنرل رینک کے جنرل آفیسر ہیڈ کیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی اس کو اپ گریڈ کر دیاگیا اور اس کے سربراہ کو لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا گیا۔ اس برانچ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاک آرمی کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے پیشرو جنرل راحیل شریف دونوں آرمی چیفس بننے سے پہلے اسی برانچ کے سربراہ اور ایک پرنسپل سٹاف آفیسر تھے۔
اس ڈائریکٹوریٹ میں پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ میرے سینئر لیفٹیننٹ کرنل برکت علی ضیاء ہیں۔ اس رینک کا آفیسر فوج میں جنرل سٹاف آفیسر گریڈ وَن (GSO-1) کہلاتا ہے۔ کرنل بی اے ضیاء کا تعلق بھی میری طرح آرمی ایجوکیشن کور سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی کرنل غلام سرور مرحوم تھے جو ایجوکیشن کور ہی سے تھے اور فوج میں لکھاری ہونے کے حوالے سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ کرنل ضیاء میرے وہاں جانے کے کچھ برس بعد ایک لسانی کورس پر چین چلے گئے۔ انہوں نے چینی زبان کا ایک ابتدائی کورس پاکستان ہی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز (NIML) سے کر رکھا تھا۔ 1980ء کے عشرے سے چین کے ساتھ پاکستان کے عسکری تعلقات مزید گہرے ہو گئے تو چینی زبان کے مترجمین (انٹر پریٹرز) کی ضرورت زیادہ ہو گئی۔خود میں نے بھی 16،17برس پہلے 1968-69ء میں نیم لیفٹینی کے زمانے میں ملٹری پرشین کا چھ ماہ پر محیط ایک ابتدائی کورس کر رکھا تھا۔
میرے بیچ (Batch) میں فوج کے مختلف شعبوں (Arms and Services)سے تعلق رکھنے والے 24آفیسرز اور بھی تھے۔ جب 1979ء میں شاہِ ایران کی جگہ آئت اللہ خمینی کی اسلامی جمہوری حکومت برسراقتدار آئی تو 1980ء کے عشرے میں ایران کے کئی عسکری وفود پاکستان (GHQ) آنے لگے۔ اور مجھے بھی فارسی ترجمانی (انٹرپریٹرشپ) کا اگلا ایڈوانس کورس کرنا پڑا…… یہ ایک الگ داستان ہے۔
دو روز پہلے جب صدر ترکی نے پاکستان کا دورہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ پاکستانیوں کو آنے والے برسوں میں ترکی زبان کی انٹرپریٹرشپ کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہو گی۔کئی برسوں سے ”نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز“ کا ادارہ،(NIML) انسٹی ٹیوٹ سے اپ گریڈ ہو کر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) بن چکا ہے اور اس میں بہت سی غیر ملکی زبانوں کے سول اینڈ ملٹری کورسز کروائے جا رہے ہیں۔آنے والے دور میں پاکستان اور ترکی کے درمیان ہمہ جہت تعلقات کی توسیع ایک اہم ضرورت بن رہی ہے اس لئے پاکستان کو عسکری شعبے میں بھی ترکی زبان کے مترجمین کی مزید تعداد کی ضرورت نوشتہ ء دیوار ہو گی۔ امید ہے اس کے انتظامات کئے جا رہے ہوں گے……
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اب چینی، فارسی اور ترکی زبانوں کے عسکری اور سویلین لٹریچر کی ہمہ جانبی سٹڈی کے لئے زبانی اور تحریری دونوں سرمایوں کو مزید کھنگالنا پڑے گا۔ فارسی ادب کا ایک گرانقدر ذخیرہ تو پہلے سے ہمارے ہاں موجود ہے۔ مجھے معلوم ہے عسکری فارسی کے حجم کو بھی اب پاکستان میں مزید وسعت مل چکی ہے۔ لیکن جہاں تک چینی اور ترکی زبانوں کا تعلق ہے تو ان میں یہ ضرورت آنے والے برسوں میں بڑھتی جائے گی۔ آج جس طرح ہزاروں پاکستانی طلباء چین گئے ہوئے ہیں، اسی طرح صدر طیب اردوان کے حالیہ دورے کے بعد ترکی اور پاکستان کے درمیان بھی یہ آمد و رفت بڑھے گی اور دونوں زبانوں کے دفاعی لٹریچر کا حجم بھی زیادہ ثروت مند ہوتا جائے گا۔ صدر اردوان کے دورے میں میڈیاکے ناظرین نے محسوس کیا ہو گا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان دوستانہ، برادرانہ اور مذہبی شعبوں میں مزید تعاون و تعامل کی ضرورت ہے۔ مستقبل قریب میں جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، دفاع، انفرمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیم وغیرہ جیسے شعبوں میں فروغ ہو گا تو اس کو اپنے معاشرے میں ”ہضم“ کرنے کی ابتداء ابھی سے کرنی پڑے گی۔ ہماری وزارتِ تعلیم اور NUMLکو اس سلسلے میں ابھی سے ترکی زبان میں زیادہ فعال بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
بعض غیر ملکی زبانوں میں سویلین اور دفاعی شعبوں میں الگ الگ تدریسی انتظامات درکار ہوتے ہیں۔ یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ مجھے معلوم ہے کہ فارسی زبان میں پاکستان میں یونیورسٹی لیول پر تو سویلین پرشین لٹریچر کی تدریس کی جا رہی ہے لیکن عسکری شعبے میں اس کی ضرورت آج شدید اور مزید تر ہے۔ ایران اور افغانستان کی سرکاری زبانیں فارسی اور دری ہیں۔ افغانستان کی دری، ایران کی فارسی سے تقریبا ملتی جلتی ہے لیکن ملٹری دری اور سویلین دری اور سویلین پرشین اور ملٹری پرشین میں بہت فرق ہے۔ دونوں کی عسکری لغاتیں، سویلین لغاتوں سے بالکل مختلف ہیں۔ بازار میں سویلین دری اور سویلین پرشین کی ڈکشنریاں تو دستیاب ہیں لیکن ملٹری دری اور ملٹری پرشین کی کوئی لغات آپ کو کسی بھی مارکیٹ سے نہیں ملے گی۔ان ممالک کے فوجی ہیڈکوارٹروں اور وزارت ہائے دفاع کو اس بارے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
میں نے کالم کے آغاز میں کرنل برکت علی ضیاء کی بات کی تھی۔ وہ جب چین سے واپس آئے تو ان سے تقریباً روزانہ ہی مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی۔ اس دور میں (1980ء کے عشرے میں) چین ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہو چکا تھا۔ پاکستان میں دفاع کے شعبے میں ٹیکسلا اور کامرہ میں ٹینکوں اور طیاروں کی تیاریاں روبہ عروج تھیں۔ چین کو روس نے جدید وار ٹیکنالوجی میں وافر اور ایڈوانس ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کر دی تھی۔ روس کے ٹی 59 ٹینک پاکستان میں بھی بننے شروع ہو گئے۔ یہی حال پاکستان ایرو ناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں چھوٹے پیمانے پر لڑاکا طیاروں کی ساخت پرداخت اور اوورہالنگ کا بھی تھا۔ پاکستان نے جلد ہی الخالد نام کا مین بیٹل ٹینک (MBT) بنا لیا اور پاک آرمی میں باقاعدہ اس کی انڈکشن ہو گئی۔ بعد میں ”الضرار“ ٹینک بھی منظر عام پر آگئے۔ اور اب تو یہ شعبہ ترقی و ترویج کے کئی مراحل طے کر چکا ہے۔ اب تو پاکستان، چین سے لانگ رینج آرٹلری کی درجنوں رجمنٹیں خرید رہا ہے۔ مجھے یاد ہے میں کرنل ضیاء سے اس زمانے میں کہا کرتا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ پاکستان کی تینوں سروسز (آرمی، نیوی اور ائر فورسز) چینی ہتھیاروں اور ساز و سامان (Equipment) سے بھی مسلح ہوں گی۔ آج تین عشروں کے بعد اس دور کو یاد کرتا ہوں تو ایک گونہ مسرت ہوتی ہے کہ پاکستان کی تینوں فورسز نے چین سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور ساتھ ہی امریکی اور یورپی ممالک سے بھی اپنی ان سروسز کے لئے جو اسلحہ حاصل کیا ہے اور اپنے ہاں اس کو بنانے میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ نہائت خوش آئند ہیں۔
اگلے روز معلوم ہوا کہ پاکستان، چین سے جو دورمار توپیں حاصل کرنے کی طرف پیش رفت کر رہا ہے ان کی مار (Range) 50کلومیٹر تک ہو گی۔ توپخانے کی ایک رجمنٹ میں تین بیٹریاں ہوتی ہیں اور ایک بیٹری میں 18توپیں ہوتی ہیں۔ اس طرح اگر ایک رجمنٹ میں 54 توپیں ہوں اور اگر پاکستان، چین سے 30رجمنٹوں کے حصول کی طرف گامزن ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس آنے اولے چند برسوں میں 1620 دور مار توپیں ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ اسلحہ آخر کس کے خلاف استعمال ہو گا؟ کون ہے جو ہمارا دشمن نمبر ایک ہے؟ اس وقت پاکستان کے پاس جو لانگ رینج توپخانہ ہے اس کی مار زیادہ سے زیادہ 25،26کلومیٹر ہے۔ نئی توپیں آنے کے بعد اگر یہ متروک ہوجائیں گی تو ان کو کوڑے میں تو نہیں پھینکا جائے گا؟…… ان کا مصرف کیا ہو گا؟، یہ کس فورس کے حوالے کی جائیں گی یا کس بھٹی میں ڈال کر ان سے نئی اور بہتر توپیں ڈھالی جائیں گی، یہ سوال ذہن میں اٹھتے ہیں تو ان کے جواب بھی ”اِدھر اُدھر“ سے ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں۔
کرنل برکت علی ضیاء سے اس دور کے چین کی سماجی اور معاشرتی روایات پر بھی کھل کر باتیں ہوتی تھیں۔ ابھی دو سال پہلے میرے ایک عزیز (ریٹائرڈ بریگیڈئر) کو CPEC کی کئی کمپنیوں میں بطور مترجم اور ڈائریکٹر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان سے جو معلومات ملیں وہ کرنل ضیاء کے زمانے میں حاصل ہونے والی معلومات کا گویا ایڈوانس کورس تھیں جن کو اس مختصر سے کالم میں نہیں سمویا جا سکتا۔ آج کل چین میں کرونا وائرس کا جو شور برپا ہے اس موضوع پر بھی تقریباً روزانہ کئی ایسے دوستوں سے گفتگو رہتی ہے جو بیجنگ، شنگھائی اور ارومچی وغیرہ میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کے تجربات اور ان کے تجزیئے کسی اور کالم میں …… انشاء اللہ……!