پی ڈی ایم میں اختلاف ختم اور اتفاق زیادہ، لانگ مارچ سے انتخابات میں حصہ
اسلام آباد ڈی چوک نے بہت اہمیت اختیار کر لی، وفاقی ملازمین نے تشدد کا مقابلہ کیا
اسلام آباد سے سہیل چودھری
ڈی چوک نے وفاقی دارالحکومت کی سیاست میں اہم حیثیت اختیار کر لی ہے، حتیٰ کہ موجودہ حکومت بھی ڈی چوک پر ہونے والے مظاہروں اور دھرنوں کے مطالبات پر کان دھرنے لگی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اقتدار تک پہنچانے میں ڈی چوک کا کردار کلیدی تھا حتیٰ کہ عدلیہ کی جانب سے بھی عوام کے اس حق احتجاج کو تسلیم تو کیا گیا تھا لیکن یہ کہا گیا تھا کہ ڈی چوک سے متصل پریڈ گراؤنڈ میں دھرنے اور مظاہرے کئے جائیں تاکہ زندگی کے معمولات اور ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو پائے۔اب اپوزیشن جماعتیں، پریشر گروپ اور لیبر تنظیموں کی منزل ڈی چوک میں ہوتی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کو اپنی مدت کے پہلے ڈھائی سال میں تو ڈی چوک پر احتجاج کے حوالے سے کسی سنگین چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن لگتا ہے کہ اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ عوام مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور طرزِ حکمرانی سے تنگ نظر آ رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈی چوک مسلسل آباد رہنے لگا ہے۔ اوپر سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) آہستہ آہستہ لانگ مارچ اور دھرنے پر متفق ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے حال ہی میں ڈی چوک پر پاک سیکرٹریٹ کے ملازمین کے موثر مظاہرے اور دھرنے کی بدولت ان کی تنخواہوں میں اضافے کے مطالبہ کو تسلیم کر لیا گیا کیونکہ مظاہرے میں سیکرٹریٹ ملازمین کا غیض غضب دیدنی تھا۔ حکومت کو ان کے مطالبات کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا اب معاشرے کے دیگر مضطرب حلقوں کو بھی یہ راستہ نظرآ گیا ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت اور غصیلی پی ڈی ایم کا مسئلہ بھی ڈی چوک پر ہی حل ہوگا۔ حکومتی حلقوں میں اس حوالے سے سراسیمگی نظر آ رہی ہے جبکہ فرزند راولپنڈی شیخ رشید احمد کو وزارت داخلہ کے قلمدان ملنے کا یہی شاخسانہ نظرآتا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ حسب مزاج اپوزیشن جماعتوں اور دیگر احتجاجی مظاہروں کو خوب للکارتے ہیں جبکہ سیکرٹریٹ ملازمین پر جس طرح اندھا دھند شیلنگ کی گئی اس کا مقصد اپوزیشن کو پیغام دینا مقصود تھا لیکن مظاہرین کی ثابت قدمی اور اشتعال سے جو نتیجہ برآمد ہوا اس سے شائد اپوزیشن کو تقویت مل گئی ہو۔
سینیٹ انتخابات سر پر ہیں جس کی وجہ سے آئندہ آنے والے دن وفاقی دارالحکومت میں نہایت اہم ہیں۔ اگلے ایک ڈیڑھ ماہ میں ملک کے سیاسی منظر نامے میں بہت سی تبدیلیاں متوقع ہیں اس میں ڈی چوک اور اس کے بالمقابل پارلیمنٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہوگی۔ سینیٹ انتخابات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گرما گرمی اور پی ڈی ایم کے متوقع لانگ مارچ کی بدولت آئندہ آنے والے دن سیاسی لحاظ سے غیرمعمولی طورپرسنسنی خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے پتے تاک تاک کر کھیل رہے ہیں۔ حکومت نے اپنی مدت کے ابتدائی ڈھائی سال صرف اپوزیشن کو دبانے پر صرف کئے عوامی مسائل پر توجہ چنداں نہیں دی جس کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد حکومت سے بددل اور نالاں نظر آ رہی ہے جس کی بدولت اپوزیشن کے اعتماد میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ حکومت شاید بدلتے ہوئے عوامی مزاج کو سمجھنے اور اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے یا پھر اسے خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ حکومت اپوزیشن کے حوالے سے اپنی پرانی ڈگر پر قائم نظر آتی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت کی اس حوالے سے استقامت کیا رنگ لاتی ہے۔ حکومت نے اپوزیشن سے تاحال بامعنی روابط یا اشتراک کار کا راستہ نہیں اپنایا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ بھی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
اب شاید حکومت اور اپوزیشن کے مابین برابری کی بنیاد پر مذاکرات کا بہتر وقت بھی نہیں رہا۔ سب کی نظریں سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی کے حوالے سے سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی جانب سے پیسے لینے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی،اسے اتنے طویل عرصہ تک کیوں مخفی رکھا گیا اب اس کے منظر عام ہونے کی ٹائمنگ پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں جاری ملکی سیاست کے اس اہم ترین کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا موقف نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
پی ڈی ایم نے اسلام آباد سے سید یوسف رضا گیلانی کو اپنا متفقہ امیدوار نامزد کرکے ایک اہم کارڈ کھیلا ہے۔ یہ نامزدگی ٹرمپ کارڈ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک تیر سے کئی شکار ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم میں سخت گیر موقف کی حامل دو سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے لانگ مارچ اور ایک فیصلہ کن دھرنے کے آگے بند باندھنے یا اس تجویز کے التوا میں پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کا شوشا چھوڑا گیا تھا۔ اب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو میدان میں لا کر یہ شوق بھی پورا ہو جائے گا۔ پی ڈی ایم کو اس ملاکھڑے سے اپنی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا۔ وفاقی دارالحکومت کے پی پی پی کے اہم سپوت مصطفی نواز کھوکھر نے بھی گیلانی صاحب کی حمایت کی ہے۔ پی ڈی ایم کے تقریباً 160 ووٹ ہیں جبکہ گیلانی صاحب جنوبی پنجاب اور سندھ میں اپنی رشتہ داریوں اور روابط کی بدولت جیت کے لئے باقی درکار ووٹ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی میں کپتان کے باؤنسر سے زخمی جہانگیر ترین بھی یوسف رضا گیلانی کے لئے متحرک ہو گئے ہیں۔ جہانگیر ترین کی یوسف رضا گیلانی سے دھری دھری رشتہ داری بھی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ کپتان کو بدلتے ہوئے سیاسی ماحول کا ادراک ہوا ہے اور پی ٹی آئی میں ناراض اراکین اسمبلی اور دھڑوں کو منانے کے مشن پر نظر آ رہے ہیں۔ اسی بنا پر شہباز گل، شہزاد اکبر اور زلفی بخاری جیسے پیاروں کی لاٹری نہیں نکل پائی۔ مزید ازاں فیصل واؤڈا، فیصل سلیم اور نجیب اللہ کے ناموں پر ازسر نو غور ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ کے سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلوں کے خلاف پارٹی کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، تاہم سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار پر چلنے والے اہم ترین کیس کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کو بیل آؤٹ کر سکتا ہے۔ وگرنہ سینٹ کی اسلام آباد کی سیٹ بھی خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے۔ دوسری جانب لندن میں براڈشیٹ کا قضیہ ایک افسانوی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر روز ایک نیا گل کھل رہا ہے۔ اب شریف خاندان کے خلاف سٹوری کرنے والے برطانوی صحافی ڈیوڈ روز پر الزام سامنے آ گیا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کا پاسپورٹ منسوخ ہو چکا ہے۔ آئندہ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گی اہے۔ اس وقت سیاسی درجہ حرارت بھی زوروں پر ہوگا۔ سینیٹ انتخابات اورپی ڈی ایم کے متوقع لانگ مارچ اور احتجاج کے پیش نظر آئندہ آنے والے دن اور قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔