سینٹ انتخابات قریب، پی ڈی ایم کی تحریک سست روی کا شکار ہو گئی!
سیاسی ڈائری۔کراچی
مبشر میر
ایوان بالا کے الیکشن کا مرحلہ جیسے جیسے قریب آرہا ہے اپوزیشن کی تحریک سلوموشن کا انداز اختیار کرتی جارہی ہے اور سینیٹ الیکشن کے حوالے سے امیدواروں پر گفتگو اور طریقہ کار،الیکشن پر مباحثے زور پکڑتے جارہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی خریداری پربات چیت بھی موضوعات کا حصہ ہے۔ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح ویسے ہی الیکشن کے حوالے سے ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔صوبہ سندھ سے مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار رہی ہیں۔اس میں حکمران پیپلزپارٹی نے اپنے پرانے ساتھیوں پر زیادہ انحصار کیا ہے جبکہ نئے کارکن ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ایک اندازے کے مطابق پیپلزپارٹی اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کی تعداد کے لحاظ سے 6سینیٹرز منتخب کروانے کی پوزیشن میں ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ فاروق حمید نائیک جو کہ یکم جولائی 1947ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔پروفیشنل زندگی کا آغاز حکومت سندھ میں ایک آفیسر کی حیثیت سے کیا اور پھر سول جج کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اس مرتبہ بھی ٹکٹ حاصل کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔73سالہ فاروق ایچ نائیک محترمہ بے نظیربھٹو اور آصف علی زرداری کے قانونی مشیر اور وکیل کی حیثیت سے برس ہا برس سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔غالباً ان کی اسی خدمت کو ہمیشہ پذیرائی ملی اور وہ چیئرمین سینیٹ بھی رہے۔ان کا مسلم لیگ ن کے راہنما خواجہ آصف سے قریبی رشتہ ہے۔پیپلزپارٹی کے سینئر ترین راہنما تاج حیدرجو 8مارچ 1942ء میں راجھستان میں پیدا ہوئے پارٹی کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں میں شامل ہوتے تھے لیکن اب تو پارٹی ہی ان کے نظریات سے منہ موڑ چکی ہے۔تاج حیدر پہلے بھی سینیٹر رہ چکے ہیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈووی والا ذاتی حیثیت میں کمرشل پائلٹ ہیں لیکن کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے کی بنا پر پیپلزپارٹی میں جلد ہی اہم مقام بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔نیب کے ساتھ معاملات بگڑنے کی وجہ سے خبروں کا حصہ رہے ہیں۔محترمہ شیری رحمن جن کا اصل نام شہربانو رحمن ہے صحافتی تجربے کی بنا پر پارٹی کی اہم راہنما تصور کی جاتی ہیں۔کریم خواجہ،شہادت اعوان،عبدالغنی تالپور،صادق علی میمن اور جام مہتاب بھی پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔سابق وزیرداخلہ رحمن ملک اس مرتبہ ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ایسا لگتا ہے کہ سنتھیا رچی کے الزامات نے ان کی پوزیشن کمزور کردی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سرپرائز کا ذکر کیا ہے۔اگر شو آف ہینڈ ہوا تو سرپرائز بہت مشکل ہوگا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے تقریباً 8راہنماؤں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں،جن میں عامر خان،فیصل سبزواری،رؤف صدیقی،ڈاکٹر ظفر کمالی،عبدالقادر خانزادہ،خالدہ طیب،نسرین جلیل نمایاں ہیں۔خوش بخت شجاعت کی پارٹی میں پوزیشن بہت کمزور ہوچکی ہے۔وہ ایک عرصہ سے غیر فعال رکن کی حیثیت سے منظر عام پر دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ایم کیو ایم،تحریک انصاف اور جی ڈی اے نے اگر مشترکہ الیکشن لڑا تو نتائج اچھے آسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے فیصل واوڈا کو ٹکٹ ملنے پر بہت تشویش پائی جاتی ہے۔تحریک انصاف کے پارٹی راہنماؤں اور ورکرز نے بلوچستان کی طرح گورنر سندھ کو ایک مراسلہ تحریر کیا ہے اور وہ فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کررہے ہیں۔فیصل واوڈا نے جنرل الیکشن میں میاں شہباز شریف کو شکست دی تھی لیکن دوبارہ گنتی کا کیس بھی التواء کا شکار ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ حکمت عملی ہو کہ فیصل واوڈا سینیٹر بننے کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوں گے تو وہاں ضمنی الیکشن جلد کروادیا جائے جس سے مقدمے کی اہمیت ختم ہوجائے۔بیرسٹر محمد علی سیف جو جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی تھے ایم کیو ایم کے سینیٹر رہے اب وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرچکے ہیں۔ان کا امیدوار بننا بھی خارج از امکان نہیں۔تحریک انصاف کے یہ متوقع امیدوار بھی متنازعہ ہوسکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن)کے راہنما سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور شاہ محمد شاہ نے اپنے ووٹ پنجاب شفٹ کروائے تھے لیکن دونوں کو ٹکٹ نہیں مل رہا۔مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ،جن کا تعلق جیکب آباد سکھر ڈویژن سے ہے تحریک انصاف کے اسلام آباد سے سینیٹر بن سکتے ہیں تاکہ ان کو وفاقی وزیر بنایا جاسکے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سینیٹ میں پوزیشن مستحکم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس وقت ان کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے اس مرتبہ ایسا ہوتا بہت مشکل لگ رہا ہے۔متحدہ اپوزیشن سینیٹ میں بھی اپوزیشن میں چلی جائے گی۔سینیٹ کا الیکشن 3مارچ کو ہوگا۔
کراچی کی تاریخ میں کے ڈی اے کا سب سے بڑا لینڈ اسکینڈل سامنے آیا ہے۔اس کی گونج سندھ ہائی کورٹ میں سنائی دی گئی۔قرین قیاس ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا ازخود نوٹس لے سکتی ہے کیونکہ اسکینڈل کی نوعیت بہت حساس ہے۔تفصیلات کے مطابق تقریباً 2ہزار ایکڑ اراضی لیز پر دی گئی جس کا اختیار کے ڈی اے کو نہیں تھا۔سندھ ہائی کورٹ نے اہم ترین اداروں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
انرجی کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ عوام کے لیے منی بجٹ کی طرح ہے۔بجلی کے نر خ بھی بڑھانے کی منظوری دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت جب تک ٹیکسوں کا نظام درست نہیں کرے گی توانائی کی قیمتوں کو بڑھانے پر انحصار کرنے کی حکمت عملی انڈسٹری کو پھر سے بندش کی طرف دھکیل دے گی۔ایوان بالا کے الیکشن کے فوراً بعد وفاقی بجٹ کی تیاری عروج کو پہنچ جائے گی اس سے پہلے ہی منی بجٹ کا آنا دور اندیشی نہیں بلکہ معیشت کے لیے ایک دھچکا ہے۔