پاکستانی سیاست میں پنجاب کارڈ کا کوئی وجود نہیں
صوبائی کارڈ استعمال کرنے کے عمل کو پاکستان میں کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبائی کارڈ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے سندھ کارڈ ہمیشہ استعمال کیا ہے، اب بھی وفاقی حکومت سندھ خصوصاً کراچی میں کوئی کام کرنا چاہتی ہے تو فوراً سندھ کی خود مختاری کا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ آئین میں وفاق کا صوبائی معاملات میں باقاعدہ ایک کردار وضع کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب بھی وفاق میں برسرِ اقتدار آئی اس نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کو یہ الزام دیا کہ وہ اپنے مفادات کے لئے سندھ کارڈ استعمال کرتی ہے حالانکہ اسے وفاقی جماعت کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ گویا مسلم لیگ (ن) ہمیشہ صوبائی کارڈ استعمال کرنے کی مخالفت کرتی رہی ہے، مگر اب ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا ہے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کھل کر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ شریف خاندان پنجاب کی پہچان اور رکھوالا ہے۔ ڈسکہ کے جلسے میں انہوں نے پنجابیوں اور پنجاب کو حکومت کے خلاف جگانے کی کوشش کیا کی، حکومتی وزراء نے ان پر تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیئے۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ مریم نواز صوبائی اور لسانی تعصب ابھار رہی ہیں۔ اس پر مریم نواز نے بغیر کسی معذرت کے اس بات کا اعتراف کیا کہ ہاں وہ پنجاب کی بات کر رہی ہیں، کیوں نہ کریں پنجاب کی مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان نے کئی برسوں تک خدمت کی ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے جانے سے پنجاب یتیم ہو گیا ہے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ مریم نواز نے یہ سب کچھ ضمنی انتخابات کے حوالے سے وقتی مقصد کے لئے کہا ہے یا وہ یہ طے کر چکی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کی سیاست ہی کرنی ہے؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب ہی کی وجہ سے مرکزی حکومت بناتی رہی ہے۔ پنجاب سے بھرپور حمایت ملنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے لئے مرکز میں حکومت بنانا ہمیشہ آسان رہا ہے پھر یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ جب وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں تھی تو پنجاب حکومت پھر بھی اسی کے پاس تھی اور اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کبھی اقتدار سے باہر نہیں ہوئی، یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب حکومت بھی نہیں بنا سکی اور وفاقی حکومت بھی اس کے ہاتھ میں نہیں کیا یہی صورتِ حال مریم نواز کو پنجاب کے بند دائرے میں لے آئی ہے۔ پیپلزپارٹی اگرچہ سندھ کارڈ ہمیشہ استعمال کرتی ہے مگر اس کا دعویٰ آج بھی یہی ہے کہ وہ ایک وفاقی جماعت ہے جس کی جڑیں چاروں صوبوں میں موجود ہیں لیکن مریم نواز پنجاب کا بیانیہ ایسے لے آئی ہیں جیسے اب انہوں نے پنجاب ہی میں اور پنجاب ہی کے نام پر سیاست کرنی ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر پنجاب شریف برادران کے بغیر یتیم ہو گیا ہے، ایک طرح سے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ نوازشریف کے جانے کا نقصان صرف پنجاب کو ہوا ہے پاکستان کو نہیں، نوازشریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں، وہ ہمیشہ قومی سیاست کرتے رہے اور انہوں نے کبھی نپجاب کا اس طرح نعرہ نہیں لگایا جس طرح مریم نواز لگا رہی ہیں تو کیا مریم نواز ایک قومی جماعت کو صوبائی جماعت بنانے کی شعوری یا غیر شعوری غلطی کر رہی ہیں؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجاب کی خوشحالی و ترقی پر چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور دانشور ہمیشہ احساس محرومی کا رونا روتے رہے ہیں پنجاب چونکہ آبادی اور وسائل کے لحاظ سے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت بڑا ہے اس لئے اسے بلا وجہ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے تاہم یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ وفاق کی مضبوطی کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ حتی الامکان یہ کوشش کی ہے کہ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی دور کیا جائے، شہباز شریف بھی ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کے لئے کے پی کے اور بلوچستان سے تعاون کرتے رہے ہیں اور اب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی بلوچستان میں کئی بڑے منصوبوں کا آغاز کر چکے ہیں اس سارے عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پنجاب سے دوسروں کو یہ تاثر نہ ملے کہ وہ صرف اپنے لئے سوچتا ہے گندم کے معاملے میں بھی نپجاب نے تینوں صوبوں کو کبھی انکار نہیں کیا، حالانکہ بعض اوقات پنجاب کے اندر بھی آٹے کی قلت پیدا ہوتی رہی۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہئے کہ پنجاب نے کبھی صوبائیت کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ پورے ملک کی بات اور مفاد کو آگے بڑھایا گیا ہے۔
کیا اسی پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو بھاری اکثریت سے کامیاب نہیں کرایا تھا اور کیا یہ بات بھی درست نہیں کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب سے دیس نکالا اس وقت ملا جب اس نے سندھ کارڈ پوری شدت سے استعمال کرنا شروع کیا۔ بے نظیر بھٹو کے لئے تو چاروں صوبوں کی زنجیر کے نعرے لگتے تھے اور جب تک لگتے رہے پیپلزپارٹی بھی وفاق کی جماعت رہی جب اس نے خود کو سندھ تک محدود کر لیا تو اس کی وفاقی حیثیت ختم ہو گئی آج قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی، کے پی کے اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حیثیت کسی علاقائی جماعت سے زیادہ نہیں رہی یہ بات بھی واضح ہے کہ آصف زرداری نے سندھ حکومت برقرار رکھنے کے لئے ہمیشہ سندھ کارڈ استعمال کیا۔ اس سے ان کی حکومت تو برقرار رہی تاہم پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ تاثر گہرا ہوتا چلا گیا کہ وہ صرف سندھ کی جماعت ہے۔
اب مریم نواز وہی غلطی دہرا رہی ہیں نوازشریف کو صرف پنجاب کا لیڈر ثابت کرنے کی راہ پر چل نکلی ہیں حالانکہ وہ قومی سطح کے لیڈر رہے ہیں۔ شہباز شریف کے بارے میں وہ کہہ سکتی ہیں کہ انہوں نے صوبے کی بڑی خدمت کی ہے مگر نوازشریف تو تین بار وزیر اعظم رہے ہیں کیا وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ نوازشریف نے وزیر اعظم بن کر بھی صرف پنجاب کا سوچا؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں پنجاب کارڈ کا کوئی وجود نہیں کیونکہ پنجاب پاکستان ہے اور پاکستان کے بارے میں سوچتا ہے۔