ہماری اماں جان
رعب دار شخصیت، لمبا قد جو جھک کر چلنے کی وجہ سے قدرے چھوٹا معلوم ہوتا تھا، گوری رنگت جس کو وقت کی سختی بھی کملا نہ سکی، ایسے سفید بال کہ جن میں کالے رنگ کا شائبہ تک نہ ہو، جب سے ہوش سنبھالا اپنے گھر میں ان کو دیکھا، اپنا ہر کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے پایا، اپنے کمرے میں موجود گیس کے ہیٹرکو چولہے کے طور پر استعمال کرنا اور صبح کی چائے وہیں بنا لینا، بچوں کا اخبار سنبھال کر رکھنا تاکہ رات کو اس میں سے بچوں کو کہانیاں سنا سکیں۔اپنے کمرے کا دروازہ کھلا رکھنا تاکہ ہر آنے جانے والے کا پتہ چلتا رہے،ان کے دم سے گھر میں ہر وقت رونق رہتی، عزیز اور رشتے دار ان سے ملنے آتے رہتے اور ہمارے گھر میں گویا ہر وقت تقریب کا سماں رہتا۔
ان کا وجود ہمارے گھر میں خیر و برکت کا ذریعہ تھا۔وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں کئی سال بستر پر رہیں، لیکن پھر بھی سب کے لئے دعا مانگنا اور سب کو پیار دینا نہ بھولتی تھیں، اپنے آخری ایام میں ان کی یاد داشت کافی حد تک متاثر ہو چکی تھی،وہ بہت کم لوگوں کو پہچانتی تھیں، لیکن پھر بھی خاندان کے تمام افراد کا نام ان کی زبان پر رہتا اور وہ مسلسل ان کو آوازیں دئیے جاتیں۔انتہائی ملنسار تھیں، مہمانوں کو رحمت سمجھتی تھیں، ان کو ہمیشہ یہی فکر رہتی کہ کہیں کوئی ان کے گھر سے کھائے پئیے بغیر نہ چلا جائے۔اپنے آخری دنوں میں ان کا کھانا پینا بہت کم ہو گیا تھا بلکہ جب بھی امی ان کو کھانا کھلاتیں تو ان کو کوشش ہوتی کہ نہ ہی کھانا پڑے لیکن ہر آنے جانے والے سے ضرور کہتیں کہ کھانا کھا کر جانا، جب بھی کوئی آتا مسلسل ایک ہی بات دہراتی رہتیں کہ ”تسی کچھ کھا لو، کچھ کھادا کہ نہیں ”پھر ہم لوگوں کو آواز دیتیں کہ ان کو کچھ کھلاؤ اور یقیناً ان کی اسی عادت کی برکت تھی کہ جب ان کا انتقال ہوا تو کھانے کی اتنی فراوانی تھی کہ بیشمار لوگوں نے کھایا، بے تحاشا غریبوں میں تقسیم ہوا لیکن کھانا کم نہ ہوا۔
شرم و حیا ایسی کہ کبھی دوپٹہ سرسے سرکنے نہیں دیا، یہاں تک کہ جب کسی بھی بات کا احساس نہیں ہوتا تھا اس وقت بھی یہی احساس تھا ”میرا سر ننگا نہ ہووے، میرے سر تے دوپٹہ دے دیو“۔ہم نے ان کی ایک ایک تکلیف اپنی آنکھوں سے دیکھی، ان کے ایک ایک درد کو محسوس کیا، لیکن ان کی بڑھتی عمر اور بیماری کے باوجود کبھی یہ خیال دماغ کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک دن وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمارے گھر میں کوئی دن ایسا بھی آئے گا جب ان کی آواز سنائی نہیں دے گی، کھانے کا کوئی وقت ایسا بھی آئے گا جب خود تو کھانے کے لئے بیٹھیں گے لیکن یہ فکر نہیں ہو گی کہ اماں جان نے کھانا کھا لیا یا ان کو کیا کھلانا ہے۔ کئی مرتبہ وہ شدید بیمار ہو جاتیں، کئی کئی دن ہسپتال میں داخل رہتیں لیکن ہمیشہ صحت یاب ہو کر گھرلوٹ آتیں، جب آخری دفعہ وہ ہسپتال گئیں تب بھی دل نے ہسپتال میں بیٹھ کر یہی کہا کہ ہم ان کو گھر لے جائیں گے، ان کو کچھ نہیں ہو گا، بلکہ آئی سی یو کے باہر بیٹھے لوگ جن کے عزیز اندر موت اور زندگی کے بیچ جھول رہے تھے، ہماری اماں جان کو تو کچھ نہیں ہو گا، انہیں تو ہم ٹھیک ٹھاک اپنے گھر لے جائیں گے دماغ البتہ الگ ہی راگ الاپ رہا تھا۔اس وقت دل نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ پچاسی سال کی عمر میں دل کا دورہ محض دورہ نہیں بلکہ وقت رخصت کے آ جانے کی پیش گوئی تھی، ان کے جانے کا سائرن تھا۔جب ابو نے آ کر کہا کہ ڈاکٹر اب بالکل ناامید ہیں اور اندر جا کر دیکھا تو وہ ہسپتال کے بستر پر شدید بے چین تھیں، جیسے اب وہ جانا چاہتی ہیں، اس وقت دل بھی دماغ کا ہمنوا ہو گیا کہ اب بس۔۔۔۔۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ پوری رات آنکھوں میں کٹی،اماں جان کی ہر چھوٹی بڑی بات ذہن میں گھومتی رہی، وہ یہ کہتی تھیں، وہ ایسے کرتی تھیں، ہسپتال جانے سے چند روز پہلے وہ دیوار کی طرف دیکھ کر بار بار ایک ہی بات کہہ رہی تھیں کہ ”امی جی! تسی مینوں لین آئے ہو“ ان کی اس بات پر پہلے تو غور نہیں کیا لیکن ان کے جانے کے بعد وہی الفاظ بار بار دماغ میں گونجتے رہے کہ واقعی ان کی امی جی ان کو لینے آ گئی تھیں،وہ اماں جان جو پچھلے کئی سال سے چھوٹے سے سفر پر بھی نہیں گئی تھیں اتنے لمبے سفر پر نکل گئیں، ان کی امی جو انہیں لینے آئیں تھیں لے کر چلی گئیں۔
وہ کسی کی امی تھیں، کسی کی دادی تھیں، کسی کی نانی، کسی کی پڑنانی، کسی کی پڑدادی۔اصلی نام ان کا جمشیدہ بیگم تھا لیکن یہ بات خاندان کے بہت کم لوگ جانتے تھے، ہم سب کے لئے وہ بس اماں جان تھیں، خاندان کا ایک مضبوط ستون تھیں۔ان کی اپنی اولاد میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں لیکن اپنے بھتیجے،بھتیجیوں، بھانجے، بھانجیوں کے لئے وہ ماں سے بھی بڑھ کر تھیں، انہوں نے اپنی اولاد اور ان میں کبھی فرق نہیں کیا تھا۔اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے لئے شجر سایہ دار تھیں۔
ہماری وہ دادی تھیں، ہمارے والد مجیب الرحمان شامی کی والدہ، ہمارے گھر کی جان۔ ان کے اور ابو کے بیچ اکثر دلچسپ نوک جھوک ہوتی جس کے آ خر میں اماں جان ہتھیار پھینک دیتیں اور بڑے مان سے کہتیں ”مجیب! تیرے تو گلاں دے وچ کوئی نہیں جت سکدا۔“ اماں جان کے سامنے امی ہم بہن بھائیوں کو کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں، اسی لئے بوقت ضرورت الگ کمرے میں لے جا کر ڈانٹتیں۔ہم سب بہن بھائیوں میں فیصل بھائی اماں جان کے بہت لاڈلے تھے اور اگر امی ابو کبھی فیصل بھائی کو کچھ کہہ دیتے تو اماں جان باقاعدہ ناراض ہو جاتیں۔ جب تک اماں جان زندہ رہیں، میں ان کے ساتھ ان کے کمرے میں سوتی تھی۔اماں جان کی زندگی بہت منظم تھی، وہ تہجد کے وقت اٹھ جاتیں اور کمرے میں چہل پہل ہو جاتی،نماز پڑھتیں، قرآن پڑھتیں،اپنی الماری ٹھیک کرتیں، چھوٹے موٹے کام کرتی رہتیں۔ امی ابو اگر کہیں چلے جاتے تو ہمارے آس پاس رہتیں، ہمارے کھانے پینے کی فکر میں ہلکان ہو جاتیں۔
آج اماں جان کو ہم سے بچھڑے پندرہ سال پورے ہو گئے ہیں، اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی وہ ہماری باتوں میں، یادوں میں، خیالات میں زندہ ہیں۔آج بھی ہرخاندانی تقریب ان کے بغیر نامکمل محسوس ہوتی ہے، تہوار بے رونق لگتے ہیں، ہر لمحہ ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔آج شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی رسی تھیں جس کو تھامے سارا خاندان متحد کھڑا تھا، اپنی کمزوری اور بیماری کے باوجود وہ سب کے لئے حوصلہ تھیں، سب کا سہارا تھیں۔وہ کیا رخصت ہوئیں،ایک ایک کر کے بہت سے قریبی رشتے دار بھی ان کے پیچھے چل دئیے۔ان کے جانے کے بعد ہر کسی کا یہ کہنا تھا کہ ان کی مشکل آسان ہو گئی، ان کی آزمائش ختم ہو گئی، یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو جانا بھی ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا اس وقت بھی دشوار تھااور آج بھی کٹھن ہے۔آج بھی دل یہی کہتا ہے کہ وہ کیوں چلی گئیں، کیسے چلی گئیں،آج بھی دل بچوں کی طرح بلکتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ کاش وہ ہمارے ساتھ ہوتیں، ہماری ہر خوشی و کامیابی میں شامل ہوتیں۔ ان کی مشکل تو آسان ہو گئی لیکن ہماری زندگی مشکل ہو گئی، ان کی آزمائش تو ختم ہو گئی لیکن ہماری ابھی باقی ہے۔
والدہ مرحومہ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 15برس گذر گئے،ڈاکٹر سویرا شامی نے ان کی یادیں تازہ کی ہیں۔ قارئین کرام سے گذارش ہے کہ ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھ کر ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے ایصال ثواب کر دیں۔ شامی خاندان، شکر گزار ہو گا۔(مجیب الرحمن شامی)