فرمانروا:پاکستان کے خاموش معاون

فرمانروا:پاکستان کے خاموش معاون
فرمانروا:پاکستان کے خاموش معاون

  


 دنیا میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ انسانیت کی خدمت پر کار بند اور انسانیت کے دشمن بھی، انسانیت کی خدمت کے کئی روپ بھی ہیں۔ لاکھوں روپیہ خدمت پر خرچ کرکے دس لاکھ تشہیر پر لگا دیں گے۔ ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے کو خبر تک نہ ہونے دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔پاکستان میں بہت سے ایسے پراجیکٹس بروئے کار ہیں جن کے بارے میں کبھی تشہیر نہیں ہوئی۔ ان میں سے کئی کا تعلق ابو ظہبی سے ہے۔ متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زید بن سلطان النہیان پاکستان آتے رہے۔ انہوں نے یہاں کے لوگوں کی پسماندگی اور زبوں حالی کو دیکھا تو تعلیم اور صحت سمیت کئی شعبوں میں منصوبے شروع کرائے۔
پاکستان میں عالمی سطح کا ایونٹ جیپ ریلی کے نام سے بہاولپور کے علاقے قلعہ دراوڑ میں چولستان کے صحرا میں ہوتا ہے۔اس ایونٹ کے انتظامات ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن پنجاب (TDCP) کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے 18ویں جیپ ریلی تھی۔اس ایونٹ میں پانچ لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔ ہوبارہ فاؤنڈیشن کے توسط سے ہر سال کی طرح لاہور سے جرنلسٹس کا گروپ بھی دراوڑ گیا۔
جب سے جیپ ریلی کا آغاز ہوا ہے۔اسے ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان سپانسر کرتی آرہی ہے۔ ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان اور ڈیئر فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کے سربراہ بریگیڈیئر مختار احمد ہیں۔ پاکستان میں انسانی فلاحی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ٹوارزم، تعلیم اور صحت کے منصوبوں میں ابو ظہبی کے فرمانرواؤں کی طرف سے دل کھول کر مدد کی جاتی ہے جبکہ تشہیر سے گریز کیا جاتا ہے۔ جیپ ریلی میں تمام انتظامات، ہورڈنگز، بینرز، بورڈز، فلیکس،فلیگ بیٹھنے کی جگہ، پانی اور خیمے لگتے ہیں۔ ان سب کا بندوبست ہوبارہ فاؤنڈیشن کی طرف سے کیا جاتا ہے مگرکہیں کسی ایک جگہ بھی فاؤنڈیشن کا نام درج نہیں ہوتا۔


 سرکاری محکموں پر ان کے ذمہ داروں کے منفی رویوں، بے ضابطگیوں بلکہ کرپشن کی وجہ سے بڑی تنقید و تبریٰ ہوتا ہے۔کالی بھیڑیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں مگر وطن سے محبت اور اپنی ذمہ داری سے انصاف کرنے والے لوگ بھی معاشرے کاحصہ ہیں جن کے باعث محکمے ادارے اور شعبے چل رہے ہیں۔ جیپ ریلی کاکامیاب انعقاد ایسے ہی لوگوں کامرہون منت ہے۔ دراوڑ میں ٹی ڈی سی پی نے اپنا ہوٹل بنا دیا ہے جو ایونٹ کے دوران ہی کھلتا ہے۔ اس کا ایک حصہ پورا سال کھلا رہے  تو بہتر ہوگا۔ 
جیپ ریلی کے مرکز سے ذرا فاصلے پر اسلامیہ یونیورسٹی کا بائیوڈائیورسٹی پارک تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا وزٹ کیا۔ اس کے ہیڈ ڈاکٹر عبداللہ ہیں۔ اسی روز اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کیمپنگ کے لیے آئے ہوئے تھے۔پارک میں 14اُسی طرح  اور طرزکے خیمے ہوبارہ فاؤنڈیشن کی طرف  سے نصب کئے گئے تھے جیسے لال سہانرہ نیشنل پارک کے قریب شیخ محمد بن زید النہیان کنزرویشن پریڈنگ سنٹر میں نصب ہیں۔  ڈائیورسٹی پارک میں صحرائی پودوں اور جانوروں پر تحقیق اور افزائش پر کام ہو رہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کا آغاز دو سال قبل ہوا۔ٹورزم اور بوٹنی کے شعبوں میں یونیورسٹی کی معاونت بھی ہوبارہ فاؤنڈیشن کی طرف سے کی جاتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاذیہ چولستان سٹڈیز کی ہیڈ ہیں۔ پارک کے وزٹ پر ڈاکٹر عبداللہ نے فاؤنا اور فلوراسے متعلق بریفنگ دی جبکہ لیکچرر مس کلثوم اختر نے ٹوارزم کے بارے میں بھی گفتگو کی۔یہ لوگ بہترین تعاون پر فاؤنڈیشن کے شکرگزار تھے۔


ہمارا قیام کنزرویشن بریڈنگ سنٹرمیں تھا۔ دوسال پیشتر اس ایریا میں دوتہائی توسیع کر دی گئی ہے۔نئے ایریا میں مزید ہرن چھوڑے جانے ہیں۔ چند ہفتے قبل اس سال جنوری میں ابو ظہبی سے لا کر تین سو تلور فضا میں چھوڑے گئے، جبکہ رحیم یار خان کے صحرا میں 2022ء ایک سال میں میں مختلف مواقع  پر9ہزار ہوبارہ ریلیز کئے گئے۔ صحراؤں سے چنکارہ اور بلیک بک (کالے ہرن)کی نسل نا پید ہو گئی تھی۔ حکومتی سطح پر اس کے تحفظ کی کوششیں کی گئیں جس میں ابو ظہبی کے حکمران خاندان نے ایک بار پھر انمٹ کردار ادا کیا۔ لال سہانرہ نیشنل پارک میں  حکومت نے ہرنوں کی افزائش کا سلسلہ شروع کیا۔ وہاں کالا ہرن اورچنکارہ دونوں رکھے گئے ہیں۔ وہاں سے کالے ہرن لے کر کنزرویشن بریڈنگ سنٹرمیں چھوڑے گئے اور چنکارہ رحیم یار خان کے سنٹر سے ہوبارہ فاؤنڈیشن کی توسط سے لائے گئے۔ محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے ساتھ بھی ہوبارہ فاؤنڈیشن کا اشتراک ہے۔ رحیم یار خان کے ڈیئر انکلوژر میں ہرنوں کی تعداد ہزاروں  تک پہنچ گئی ہے۔ابوظہبی کے رحیم یار خان کے پیلس میں چھوٹا سا انکلوژ تھا جس میں تین چارسو ہرن تھے۔98 ء میں سارے کے سارے  بڑے انکلوژرکو گفٹ کر دیئے گئے۔  اس سنٹر میں بیری کے درخت بڑی تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ بیری کی پنیری امارات سے لائی گئی تھی۔


پاکستان میں ہرن کی نسل کو بڑھانے کے لیے ہوبارہ فاؤنڈیشن کا کام، کارکردگی اور کردار عمدہ ہے۔ اس کی طرف سے ہرن کئی اداروں کو دیئے گئے۔ملک بھر میں چنکارہ ہزاروں کی تعداد میں بھجوائے گئے۔بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی، شاہ نورانی، سندھ کے تین بڑے سنٹرز  (بدین، ٹھٹھہ، گھوٹکی)، کے پی کے کے تین بڑے سنٹرزمیں اور پنجاب کے بیشتر علاقوں بشمول لال سہانرا، سرکاری محکمہ جات، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور(UVAS)یونیورسٹی آف ویٹرنری اند اینیمل سائنسز، لاہور (پتوکی) کو نہ صرف ہرن ان کی درخواست پر دیئے گئے بلکہ سب مقامات پر بریگیڈیئرمختار کی ہدایت پر خود پہنچائے گئے۔چنکارہ کی افزائش عمومی صورتِ حال اطمینان بخش رہی ہے کہیں توقع کے مطابق نتائج نہ مل سکے، مگر فاؤنڈیشن بدستور اپنے مقاصد پر کار بند ہے۔
 شیخ محمد بن زید النہیان کنزرویشن بریڈنگ سنٹر کے ڈیئر انکلوژمیں اب تازہ اضافہ نیل گائے کا ہوا ہے۔ ان کی تعداد اب دو بچوں کی پیدائش کے بعد بارہ ہو گئی ہے۔اس سنٹر کے ایک حصے میں لیبارٹری بنائی گئی ہے جس میں دس بارہ جارزیعنی شیشے کی بوتلوں میں سانپ رکھے گئے ہیں۔یہ وہ سانپ ہیں جو سٹاف کو نظر آئے اور ان کو مار دیا۔ بعد میں ان کو کیمیکل میں حنوط کر دیاگیا۔اس ایریا میں کبوتر،فاختائیں، مرغابیاں،عقاب اور بے شمار صحرائی پرندے دیکھے گئے۔ ایک عقاب مرا ہوا بھی پایا گیاجسے حنوط کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ مرغابیاں انکلوژر کے اندر بنائے گئے ٹوبوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ ٹوبے جانوروں کے پانی پینے کے لیے بنائے گئے ہیں جن میں بارش کا پانی جمع رہتا ہے۔
پاکستان میں ہوبارہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پروجیکٹس بے شمارہیں۔ہسپتال، تعلیمی ادارے ٹریننگ سنٹر، ڈسپنسریاں، دریائے سندھ کے پاٹ پر دس کلو میٹر طویل ترین شہکار پُل ایسے منصبوں کی مختصر مثال ہے۔ایک ایک منصوبہ ڈسکس کرنے کے لئے کتاب کی ضرورت ہوگی۔
لاہور سے جانے والے جرنلسٹ میں:افتخار احمد خان (گروپ کوآرڈی نیٹر)،عقیل انجم اعوان،محمد اکرم،سید بدر سعید،عمار خان،حافظ اعجاز بشیر،فیصل علوی،نعمان،سجاد،شیخ دانیال اعظم ملک اور فضل حسین اعوان شامل تھے۔شعیب مرزا صحت کے مسائل کے باعث ساتھ نہ جاسکے۔

مزید :

رائے -کالم -