خط بنام محترم وزیرِ اعظم صاحب
جناب عالی!
آپ مہنگائی کا پہاڑ ہم پر لاد دیں ہم ناتواں کندھوں پہ سہار لیں گے۔ آئی ایم ایف کے احکام پر 170 ارب روپے کے ٹیکسوں کو عوام پر نافذ کر دیں ہم تحمل و صبر کر لیں گے۔ مگر خدارا! یہ تاثر نہ دیں کہ پچیس کروڑ لاوارث لوگوں کی نوائے نحیف آپکے ایوانوں کی سنگلاخ دیواروں سے ٹکرا کر دھول میں گم ہو جاتی ہے اور آپکی سماعتوں میں حاضری دینے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ یہ تاثر مت دیں جیسے یہ سب بینائی سے محروم ہیں اور انہیں کچھ نظر آتا۔ اور اگر نظر آتا بھی ہے تو آپکی بلا سے۔ یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ایک طرف ملک کے دیوالیہ ہونے کے لمبے مہیب سائے ملک کو گھیرے ہیں۔ دوسری جانب کمال بے حسی سے حکومتی اخراجات زود افزوں ہیں۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ قلیل المدتی موثر اقدام حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی کر کے ہوں گے۔ مگر یہ اسکے برعکس ہوا۔ وزرا اور معاونین کی فوج ظفر موج کھڑی کر دی گئی ہے۔ عوام پر پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ اور ناقابلِ برداشت ٹیکس تو ڈال دئیے لیکن عوام دیکھ رہی ہے کہ حکومتی اللے تللے جاری و ساری ہیں۔ وزرا اور معاونین تنخواہ لیتے ہیں یا نہیں، حکومتی اخراجات میں اضافہ کا موجب ہیں یا نہیں، یہ سب باتیں اس تاثر کو زائل نہیں کر سکتیں کہ حکومت تمام بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے۔ اپنی اتحادی جماعتوں کی خوشی اور خوشنودی کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ عوام کی چیخیں آسمان کو چھو رہی ہیں لیکن سیاستدان سکون سے ہر قسم کے استثنی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ بہت دلجمعی سے کر رہے ہیں۔
عام آدمی نعرہ بھی بلند کر دے تو بند کر دیا جاتا ہے۔ سو روپے کی ہیر پھیر کر لے تو دھر لیا جاتا ہے۔ مگر حکومت تو کیا اپوزیشن کے بد نما رہنما مالی بدعنوانی سے لیکر بغاوت کے کیسوں میں نامزد ہونے کے باوجود“ٹانگ”پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہیں مگر پولیس و ایف آئی اے کو اجازت ہی نہیں کہ انکو انگلی بھی لگائیں۔ خدانخواستہ دکھاوے اور دھوکے کے لئیے کچھ پیش رفت کی جائے تو منصفِ مطلق العنان قانون کی باندی کو باندھ کر آپکو اور انکو مشکل سے ایسے با عزت نکالتے ہیں کہ نیم مردہ عوام بھی نیم خوابیدگی سے چونک اٹھتے ہیں اور حسرت و حیرت سے انکی نیم وا آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ وہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی تو تھانہ کچہری کا نام سن کر ہی تھرا اٹھتا ہے۔ یہ کون اوتار ہیں جنہیں سنگسار کرنا تھا مگر ان سے پیار کیا جا رہا ہے۔ ہمارے لئیے اور اشرافیہ کے لئیے دو مختلف اقسام کے نظامِ عدل کیوں؟ یہ دو پاکستان خدانخواستہ ایک کو بھی لے ڈوبیں گے۔
چند جاگتے ہوئے لوگ ان کریہہ مناظر کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ رہنماوں کے وسیع آلبنیاد گٹھ جوڑ کے علاوہ مخصوص کردار والے افسران بصورتِ مافیا ملک پہ مسلط کر دئیے گئے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جا رھا کہ انکے کردار اور کرتوت کیا تھے اور کیا ہیں۔ صرف وفاداری اور کاسہ لیسی شر ط ہے یا تگڑی سفارش ہو، یا شام کے گروپ کے ممبر ہوں باقی چاہے کرپٹ، چور، اور نا اہل ہوں، چلیں گے۔ اہلیت و قابلیت کی ثانوی حیثیت ہے۔ جنابِ عالی! جہاں میرٹ نہ ہو وہاں معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے اور نتیجتاً معیشت بھی تباہ ہو جاتی ہے۔
معیشت صرف غلط پالیسی سے زبوں حالی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ میریٹ کو نظر انداز کرنے سے ہوتی ہے۔ انکا بہت گہرا تعلق ہے جو شاید بظاہر آپکو نظر نہیں آ رہا۔ آپ کسی مردِ درویش کی آزادانہ رائے لیجئیے گا، وہ آپکو بتائے گا کہ آپ کے دورِ حکومت میں بھی میرٹ کو اغوا کر کے بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے?۔ اور اسکی برہنہ اور بریدہ لاش آپکو نظر نہیں آ رہی۔
وقت گزر جاتا ہے تو سابقہ حکمران حیلے بہانے بناتے ہیں۔ بے بسی ایک بہانہ ہے جو ہر حکمران بعد میں پیش کر دیتا ہے۔ عمران بھی چار سالہ نااہلی کا ملبہ اپنی بے بسی ہر ڈالتا ہے اور اپنے آقاؤں کو موردِ الزام ٹھراتا ہے۔ اگر اسے احتساب، قانون اور آئین کا خیال اور خوف ہوتا تو نہ وہ ایسی حرکات کا مرتکب ہوتا اور نہ ایسے بیان بعد از حکومت دیتا۔ مگر عذرِ گناہ بد تر از گناہ۔ آپ بھی ایسے ہی عذر تراشنے سے بہتر ہے کہ مخلصانہ، مدبرانہ اور جراتمندانہ فیصلے کریں۔ حکومت آنی جانی شئے ہے۔ اس سے لپٹنے کی چاہ میں عوام و ریاست کو پسِ پشت ڈالنے والے حکمران تاریخ کے بہت تاریک اوراق کا حصہ بنتے ہیں۔
عالی مرتبت! رہنما امید کے پیامبر ہوتے ہیں۔ عوام کو آپ سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ یہ امیدیں شکستگی کا شکار ہیں۔ اگر یہ امید ختم ہو گئی تو ایسا غبار اٹھے گا جو چہروں کو ناقابلِ شناخت بنا دے گا اور نظام کو لپیٹ دے گا۔ درخواست ہے کہ عوام کی امیدوں کے ٹمٹماتے چراغ بجھنے نہ دیں۔
العارض
نوید الہی