نئے خانساماں نے جوقورمہ پکایا، شوربے کایہ عالم تھا کہ ناک پکڑکے غوطے لگائیں توشاید کوئی بوٹی ہاتھ آجائے( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

نئے خانساماں نے جوقورمہ پکایا، شوربے کایہ عالم تھا کہ ناک پکڑکے غوطے لگائیں ...
نئے خانساماں نے جوقورمہ پکایا، شوربے کایہ عالم تھا کہ ناک پکڑکے غوطے لگائیں توشاید کوئی بوٹی ہاتھ آجائے( مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

  

آخری قسط

ایسی ہی ایک اوردعوت کا ذکرہے جس میں چند احباب اورافسران بالا دست مدعوتھے۔ نئے خانساماں نے جوقورمہ پکایا، اس میں شوربے کایہ عالم تھا کہ ناک پکڑکے غوطے لگائیں توشاید کوئی بوٹی ہاتھ آجائے۔ اکا دکا کہیں نظر آبھی جاتی تو کچھ اس طرح کہ، 
صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں 
اوربساغنیمت تھا کیوں کہ مہمان کے منہ میں پہنچنے کے بعد، غالب کے الفاظ میں، یہ کیفیت تھی کہ، 
کھینچتاہے جس قدراتنی ہی کھنچتی جائے ہے! 
دوران ضیافت احباب نے بکمال سنجیدگی مشورہ دیا کہ ”ریفریجریٹر خریدلو۔ روز روز کی جھک جھک سے نجات مل جائی گی۔ بس ایک دن لذیذ کھانا پکوالو۔ اورہفتے بھرٹھاٹ سے کھاؤ? اورکھلاؤ?۔“ 
قسطوں پرریفریجریٹرخریدنے کے بعد ہمیں واقعی بڑا فرق محسوس ہوا۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پہلے جو بدمزہ کھانا صرف ایک ہی وقت کھاتے تھے، اب اسے ہفتے بھرکھانا پڑتا ہے۔ 
ہم نے اس عذاب مسلسل کی شکایت کی تو وہی احباب تلقین فرمانے لگے کہ، 
”جب خرچ کیاہے صبربھی کر، اس میں تو یہی کچھ ہوتاہے۔“ 
کل پھرمرزا سے اپنی گوناگوں مشکلات کا ذکرکیا تو کہنے لگے، 
”یہ الجھنیں آپ نے اپنے چٹورپن سے خواہ مخواہ پیدا کررکھی ہیں۔ ورنہ سادہ غذا اوراعلیٰ خیالات سے یہ مسئلہ کبھی کاخودبخود حل ہوگیا ہوتا۔ یہی آئین قدرت ہے اوریہی آزاد تہذیب کی اساس بھی! آپ نے مولوی اسماعیل میرٹھی کاوہ پاکیزہ شعرنہیں پڑھا؟ 
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر 
تووہ خوف وذلت کے حلوے سے بہتر 
عرض کیا، ”مجھے کسی کے آزاد رہنے پر، خواہ شاعرہی کیوں نہ ہو، کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اس شعرپرمجھے عرصہ سے یہ اعتراض ہے کہ اس میں آزادی سے زیادہ خشک روٹی کی تعریف کی گئی ہے۔ ممکن ہے عمدہ غذا اعلیٰ تہذیب کوجنم نہ دے سکے، لیکن اعلیٰ تہذیب کبھی خراب غذا برداشت نہیں کرسکتی“ 
فرمایا، ”برداشت کی ایک ہی رہی! خراب کھانا کھا کربدمزہ نہ ہونا، یہی شرافت کی دلیل ہے۔“ 
گزارش کی، ”مردانگی تویہ ہے کہ آدمی عرصہ تک عمدہ غذا کھائے اورشرافت کے جامے سے باہرنہ ہو!“ 
مشتعل ہوگئے، ”بجا! لیکن یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی اٹھتے بیٹھتے کھانے کا ذکرکرتا رہے۔ برانہ مانئے گا۔ آپ کے بعض مضامین کسی بگڑے ہوئے شاہی رکابدارکی خاندانی بیاض معلوم ہوتے ہیں۔ جبھی توکم پڑھی لکھی عورتیں بڑے شوق سے پڑھتی ہیں۔“ 
ہم نے ٹوکا، ”آپ بھول رہے ہیں کہ فرانس میں کھانا کھانے اورپکانے کا شمارفنون لطیفہ میں ہوتاہے۔“ 
وہ بگڑگئے، ”مگرآپ نےتو اسے جنون لطیفہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ اگرآپ واقعی اپنی بے قصورقوم کی اصلاح کے درپے ہیں توکوئی کام کی بات کیجئے اورترقی کی راہیں سجھائیے۔“ 
مزہ لینے کی خاطرچھیڑا، ”ایک دفعہ قوم کواچھا پہننے اورکھانے کا چسکا لگ گیا توترقی کی راہیں خودبخود سوجھ جائیں گی۔ گاندھی جی کاقول ہے کہ جس دیس میں لاکھوں آدمیوں کودو وقت کا کھانا نصیب نہ ہوتا ہو، وہاں بھگوان کی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ان داتا کے سوا کسی اور روپ میں سامنے آسکے۔ بھوکے کے لیے بھوجن ہی بھگوان کا اوتار ہے اور۔۔۔“ 
قطع کلامی کی معافی مانگے بغیربولے، ”مگروہ تو بکری کادودھ اورکھجورکھاتے تھے اورآپ فن غذا شناسی کو فلسفہ خدا شناسی سمجھ بیٹھے ہیں۔ خود آپ کے محبوب یونانی فلسفی جوبھرپورزندگی کے قائل تھے، دماغ سے محسوس کرتے اوردل سے سوچتے تھے۔ مگرآپ تومعدے سے سوچتے ہیں اوردیکھا جائے توآپ آج بھی وہی مشورہ دے رہے ہیں جوملکہ میری انطونیت نے دیاتھا۔ ایک درباری نے جب اس کے گوش گزارکیا کہ روٹی نہ ملنے کے سبب ہزاروں انسان پیرس کی گلیوں میں دم توڑرہے ہیں تواس نے حیرت سے پوچھا کہ یہ احمق کیک کیوں نہیں کھاتے؟“ 
نوٹ :مشتاق احمد یوسفی کے مضمون "جنونِ لطیفہ " سے اقتباس