فراڈ کمپنی سے 1646 کروڑ روپے کی کرپٹو کرنسی ضبط کر لی گئی

نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارت کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے منی لانڈرنگ کے ایک بڑے کیس میں بھارتی 1646 کروڑ روپے مالیت کی کرپٹو کرنسی ضبط کر لی۔ یہ کرپٹو کرنسی کی اب تک کی سب سے بڑی ضبطی قرار دی جا رہی ہے۔ یہ کارروائی ایک فراڈ انویسٹمنٹ سکیم کے خلاف کی گئی، جس میں سرمایہ کاروں کو سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کے نام پر دھوکہ دیا گیا تھا۔ ای ڈی کا یہ مقدمہ پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت درج کیا گیا تھا پولیس رپورٹ کے مطابق، یہ مالیاتی دھوکہ دہی نومبر 2016 سے جنوری 2018 کے درمیان یعنی نوٹ بندی کے بعد کی گئی۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق تحقیقات کے دوران ای ڈی کی ایک ماہر تکنیکی ٹیم نے کرپٹو والٹس کے پیچیدہ لین دین کا تجزیہ کیا تاکہ ان کے اصل مالکان اور منتظمین کا سراغ لگایا جا سکے۔ کئی لین دین "ڈارک ویب" کے ذریعے کیے گئے تاکہ ان کی نگرانی اور شناخت کو مشکل بنایا جا سکے۔ای ڈی نے کئی ویب والٹس کا کھوج لگایا اور خفیہ معلومات اکٹھی کر کے ان مقامات کی نشاندہی کی جہاں ڈیجیٹل ڈیوائسز میں یہ کرپٹو کرنسی موجود تھی۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے ذرائع کے مطابق ضبط شدہ 1646 کروڑ روپے مالیت کی کرپٹو کرنسی کو ای ڈی کے خصوصی کرپٹو والٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے، جو اب تک کی سب سے بڑی ورچوئل ڈیجیٹل اثاثوں کی ضبطی سمجھی جا رہی ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ 'بٹ کنیکٹ' نامی غیر رجسٹرڈ تنظیم کے بانی نے ایک عالمی نیٹ ورک بنایا، جس میں سرمایہ کاروں کو لبھانے کے لیے مختلف پروموٹرز کو کمیشن دیا جاتا تھا۔ ای ڈی کے مطابق بٹ کنیکٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سرمایہ کاروں کے فنڈز کو ایک "والیٹیلیٹی سافٹ ویئر ٹریڈنگ بوٹ" میں استعمال کرے گا، جو 40 فیصد ماہانہ تک منافع فراہم کرے گا۔
تحقیقات میں پتہ چلا کہ بٹ کنیکٹ نے اپنی ویب سائٹ پر فرضی منافع کے اعداد و شمار شائع کیے جو یومیہ ایک فیصد یا سالانہ تقریباً 3700 فیصد کے برابر تھے۔ تاہم حقیقت میں یہ محض ایک دھوکہ تھا کیونکہ ملزمان جانتے تھے کہ وہ سرمایہ کاروں کے فنڈز کو ٹریڈنگ میں استعمال کرنے کے بجائے خود اور اپنے ساتھیوں کے فائدے کے لیے اپنے ڈیجیٹل والٹس میں منتقل کر رہے ہیں۔
ای ڈی نے اس کیس میں اس سے قبل بھی 489 کروڑ روپے کے اثاثے منسلک کیے تھے۔ ذرائع کے مطابق بٹ کنیکٹ میں غیر ملکی شہریوں نے بھی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس سکینڈل کے مرکزی ملزم کے خلاف تحقیقات امریکہ میں جاری ہیں۔