سابق سرجن پر ایک سالہ بچے سے لے کر 70 برس کی خاتون اور اپنی بھانجیوں سمیت 300 مریضوں کے جنسی استحصال کا الزام، انتہائی شرمناک تفصیلات سامنے آگئیں

پیرس (ڈیلی پاکستان آن لائن) فرانس میں ایک سابق سرجن جوئل لی سکوآرپر تقریباً 300 مریضوں کے ریپ اور جنسی استحصال کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ان میں سے کئی متاثرین بے ہوشی کی حالت میں تھے اور متاثرین میں سے زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔ یہ جرائم مغربی فرانس کے مختلف ہسپتالوں میں تقریباً 25 سال کے دوران کیے گئے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 74 سالہ ملزم کے خلاف یہ مقدمہ 24 فروری سے شروع ہوگا اور چار ماہ تک جاری رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کے اثرات نہ صرف فرانس بلکہ عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔ خاص طور پر یہ مقدمہ اس وقت ہو رہا ہے جب فرانس میں دو ماہ قبل ڈومینیک پلیکٹ کو اپنی بیوی کے ساتھ درجنوں اجنبی افراد سے جنسی زیادتی کروانے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، جس سے متاثرہ خاتون عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کی علامت بن گئیں۔
جوئل لی سکوآرکے خلاف مقدمہ عوامی طور پر سنا جائے گا تاہم وہ متاثرین جو بچپن میں نشانہ بنے ان کی گواہی بند کمرے میں لی جائے گی۔ پراسیکیوٹر سٹیفان کیلنبرگر کے مطابق ملزم نے عمومی طور پر بیشتر جرائم کا اعتراف کیا ہے اور اس نے اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اختیار کیں۔ متاثرین کی اوسط عمر 11 سال بتائی جا رہی ہے لیکن ملزم پر ایک سالہ بچے کے ریپ اور 70 سالہ خاتون کے جنسی استحصال کا بھی الزام ہے۔ اس نے 1989 سے 2014 کے درمیان مغربی فرانس کے مختلف طبی اداروں میں کام کرتے ہوئے یہ جرائم کیے۔
ملزم کے خلاف 111 ریپ اور 189 جنسی استحصال کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس مقدمے میں 299 متاثرین میں سے 256 کی عمر 15 سال سے کم تھی۔ اگر اسے مجرم قرار دیا جاتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ 20 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے کیونکہ فرانسیسی قانون کے تحت کئی متاثرین ہونے کے باوجود سزا کو جمع نہیں کیا جا سکتا۔
یہ سابق ڈاکٹر پہلے ہی دسمبر 2020 میں چار بچوں کے ریپ اور جنسی استحصال کے الزام میں 15 سال قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ ان میں اس کی اپنی دو بھانجیاں بھی شامل تھیں۔ تحقیقات 2017 میں اس وقت شروع ہوئیں جب ایک چھ سالہ بچی نے اس کے خلاف ریپ کی شکایت درج کرائی۔ بعد ازاں تفتیش میں مزید متاثرین کے انکشافات ہوئے جن میں 1990 کی دہائی کے ایک چار سالہ مریض کا کیس بھی شامل تھا۔
تفتیش کاروں نے جب اس کے گھر کی تلاشی لی تو وہاں سے تین لاکھ فحش تصاویر اور درجنوں گڑیائیں برآمد ہوئیں۔ انہیں وہ جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا۔ مزید یہ کہ اس نے اپنے تمام متاثرین کے نام اور تفصیلات باقاعدہ درج کی تھیں جن میں وہ افراد بھی شامل تھے جن کا اس نے آپریشن کے دوران جنسی استحصال کیا۔
مقدمے کے دوران سرکاری حکام کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے۔ 2017 میں ملزم کو حراست میں لیے جانے کے بعد ہی اسے میڈیکل رجسٹری سے ہٹایا گیا تھا حالانکہ اسے 2005 میں بچوں کی جنسی استحصال کی تصاویر ڈاؤن لوڈ کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم اسے صرف چار ماہ کی معطل سزا دی گئی اور نہ ہی اس پر کوئی پیشہ ورانہ پابندی عائد کی گئی۔ بعد میں اسے ایک اور ہسپتال میں ملازمت دی گئی اور یہاں تک کہ ترقی بھی دی گئی حالانکہ ہسپتال انتظامیہ اس کی سابقہ سزا سے آگاہ تھی۔