روسی فرنٹ لائن پر جسم فروشی عروج پر، خواتین ایک ہفتے میں 46 لاکھ روپے کمانے لگیں، لیکن فوجی جسمانی تعلق کی بجائے کیا کام کرتے ہیں؟

ماسکو (ڈیلی پاکستان آن لائن) یوکرین میں جنگ لڑنے والے روسی فوجیوں کے لیے جسم فروش خواتین جنگی علاقوں میں پہنچنے کا خطرہ مول لے رہی ہیں۔ یہاں یہ خواتین فرنٹ لائن پر جنسی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ جنگی محاذ کے قریب کام کرنے والی کئی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ ہفتے میں تقریباً 13 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 46 لاکھ روپے) کما رہی ہیں۔ روسی فوجی اپنی تنخواہیں اور جنگی معاوضہ جسم فروشی پر خرچ کر رہے ہیں۔ بعض اوقات یہ ملاقاتیں خندقوں میں بھی ہو رہی ہیں، جہاں خواتین گولیوں اور ڈرون حملوں کے درمیان اپنی جان خطرے میں ڈال کر "قریبی تعلق" قائم کر رہی ہیں۔
برطانوی اخبار مرر کے مطابق حیران کن طور پر کئی فوجیوں کو جنسی تعلق کی ضرورت نہیں بلکہ وہ صرف بات چیت کے خواہشمند ہوتے ہیں تاکہ جنگ کی ہولناکیوں کو کچھ دیر کے لیے بھلا سکیں۔ ایک خاتون نے بتایا "ہر دوسرا گاہک صرف بیٹھ کر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ ان جنگجوؤں کی دنیا میں صرف مرد اور لاشیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔"
ایک اور جسم فروش خاتون نے کہا "وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ان کے لیے سب کچھ کتنا مشکل ہے، وہ اس جنگ سے کتنے تھک چکے ہیں اور کب یہ سب ختم ہوگا۔ ایک بارمیری دوست اور میں آٹھ گھنٹے تک ایک فوجی کے ساتھ بیٹھی رہیں، شراب پی، باتیں کیں، لیکن کوئی جنسی تعلق قائم نہیں ہوا۔ اس کے باوجود اس نے ہمیں پوری ادائیگی کی۔"
ایک خاتون مریانا نے کہا "ان کی زیادہ تر کہانیاں ان ساتھیوں کے بارے میں ہوتی ہیں جنہیں وہ بچا سکتے تھے لیکن بچا نہیں پائے۔ تقریباً ہر فوجی کا کوئی نہ کوئی بھائی یا قریبی دوست مر چکا ہوتا ہے اور وہ روتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں اس کی ماں کو کیا جواب دوں گا، اس کی محبوبہ کو کیا کہوں گا؟ میں ان کے سامنے خاموش رہتی ہوں اور کچھ نہیں کہتی۔" مریانا کے مطابق فرنٹ لائن پر کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق کرپٹ فوجی افسران بھی جسم فروشی کے اس دھندے میں ملوث ہیں اور دلالوں سے رشوت لے کر فرنٹ لائن پر ایسی ملاقاتوں کی اجازت دے رہے ہیں۔ یہ ملاقاتیں ان فوجیوں کے ساتھ ہو رہی ہیں جو تقریباً تین سال سے مسلسل جنگ لڑ رہے ہیں۔ جسم فروش خواتین کے مطابق ہر دوسرا گاہک صرف بات چیت کے لیے پیسے دیتا ہے، کیونکہ فوجی ذہنی صدمے، پچھتاوے اور جنگ کی تھکن کا شکار ہیں۔ ایسی بات چیت کے لیے عام طور پر 130 پاؤنڈ فی گھنٹہ تک ادا کیے جا رہے ہیں۔