50ء کی دہائی میں پاکستان میں ڈیزل انجن بڑے دھوم دھڑکے سے داخل ہوئے، اس وقت تک تمام گاڑیاں بھاپ کے انجنوں پر ہی چلتی تھیں 

50ء کی دہائی میں پاکستان میں ڈیزل انجن بڑے دھوم دھڑکے سے داخل ہوئے، اس وقت تک ...
50ء کی دہائی میں پاکستان میں ڈیزل انجن بڑے دھوم دھڑکے سے داخل ہوئے، اس وقت تک تمام گاڑیاں بھاپ کے انجنوں پر ہی چلتی تھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:42
1950ء کی دہائی میں پاکستان کے ریلوے نظام میں ڈیزل انجن بڑے دھوم دھڑکے سے داخل ہوئے۔ اس وقت تک تمام گاڑیاں یعنی ایکسپریس، پسنجر اور مال گاڑیاں بھاپ کے انجنوں پر ہی چلتی تھیں، اور جن پر پشاور سے کراچی تک پہنچنے میں ڈھائی تین دن تو بڑے آرام سے لگ ہی جاتے تھے۔ سب سے پہلی گاڑی جو پاکستان میں ڈیزل پر چلی وہ پاکستان کی بھی سب سے پہلی میل اور ایکسپریس گاڑی خیبر میل تھی۔پہلی کھیپ میں 20 سے زیادہ ڈیزل انجن پاکستان پہنچے تھے جو ضرورت سے بہت کم تھے۔ اس لیے کئی علاقوں کی برانچ لائنوں پر تو  1980ء تک اسٹیم انجن ہی چلتے رہے۔
ڈیزل انجن آئے تو ان کی کان پھاڑ دینے والی وسل کی آواز نے ایک صدی پرانی ریل کی اس دِل نشین مگر اداس سی سیٹی کو کہیں دوربھیج دیا جس میں درد اور سوز کے علاوہ سْر تھے، سکون تھا اور رومانس بھی۔ ڈیزل انجن کی کان پھاڑتی ہوئی پاں پاں میں وہ شہد جیسی گھلاوٹ کہاں تھی جو اسٹیم انجن کی آدھی رات کو یا صبح کاذب کے وقت بجنے والی سیٹی میں ہوتی تھی۔
رفتہ رفتہ مزید ڈیزل انجن پاکستان پہنچتے رہے، جن کو مرکزی لائن کی گاڑیوں میں جوت دیا گیا اورمسترد کیے گئے پْرانے اسٹیم انجنوں کو تھکی ماندی برانچ لائنوں پر چلنے دیا گیا یا شنٹنگ یارڈ میں ڈبوں کو ادھر اْدھر کھسکانے، گھیر گھار کر اکٹھا کرنے اور جوڑ کر گاڑیاں بنانے پر لگا دیا گیا۔
ڈیزل انجن تھوڑا مختلف مگر طاقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی، وزنی اور شاندار مشین ہوتی ہے۔ اس کا وزن200 ٹن سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور طاقت کوئی 6 ہزار ہارس پاور ہوتی ہے۔ اس کی اوسط رفتار 200کلومیٹر تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ابتداء میں انجنوں میں ڈیزل کو ہی بطور ایندھن استعمال کیا جاتا تھا۔ پھرکسی انجینئر کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اسی انجن کے جنریٹروں سے بجلی حاصل کرکے ثانوی اور بڑی ٹریکشن موٹریں لگائی جائیں جن کو انجن کے ساتھ منسلک کرکے انجن کی رفتار اور کارکردگی کوبڑھایا جا سکے جس سے ایندھن کے استعمال میں بچت ہو جائے۔ تجربہ کامیاب رہا اور آج کل کے ڈیزل انجنوں کو چلانے میں بجلی بھی استعمال ہوتی ہے جو اپنے ہی جنریٹر سے حاصل کی جاتی ہے۔ ایسی موٹروں کو اے سی ٹریکشن موٹرز کہا جاتا ہے اور یہ براہ راست پہیوں کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔ ایک انجن میں ان کی تعداد 6تک ہوتی ہے اور یہ 1ہزار ہارس پاور طاقت کی ہوتی ہیں۔اس لیے آج کل کے اس ڈیزل انجن کو الیکٹرو ڈیزل لوکوموٹیو بھی کہتے ہیں۔
بنیادی طور پر جدید ڈیزل انجن کے 2حصے ہوتے ہیں۔ اگلے حصے میں ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے جہاں سے وہ انجن کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انجن میں ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا 2 نشستوں والا ایئرکنڈیشنڈ ڈرائیور کیبن ہوتا ہے جس میں یہ لوگ بڑے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر اپنا کام کرتے ہیں، یہ ڈرائیور دودھ جیسے دھلے کپڑوں، ٹائی اور ریلوے کی مخصوص ٹوپی لگا کر کسی جہاز کے پائلٹ ہی لگتے ہیں۔ ان کی سامنے ٹی وی کیمرے اور کمپیوٹر سکرین بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں جو گاڑی کے سامنے اور چاروں طرف کے مناظر دکھاتے رہتے ہیں۔ واکی ٹاکی، وائی فائی یا موبائل کے ذریعے ان کا رابطہ ہر وقت آس پاس کے  اسٹیشنوں اور ہیڈ کوارٹرز سے رہتا ہے۔ گاڑی کی رفتار بتانے کے لیے ان کے پاس سپیڈو میٹر ہونے کے علاوہ نیٹ ورک کے ذریعے نیوی گیشن سسٹم سے بھی رابطہ رہتا ہے جو نہ صرف ان کو آگے روٹ کی صورت حال بتاتا رہتا ہے بلکہ گاڑی کی رفتار کی تصدیق بھی کرتا ہے۔سامنے پینل پر بے شمار بٹن اور گیج وغیرہ لگے ہوتے ہیں جن سے انجن کی کارکردگی اور گاڑی سے متعلق ہر قسم کی معلومات ان کو ملتی رہتی ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -