سکول پیدل آیا جایا کرتے تھے پھر سائیکل مل گئی،جسے چلاتے ہوئے موڑو تو مڑتی نہیں تھی، سائیکل والا کہتا تھا”اس کے کتے فیل ہو گئے ہیں“

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:83
مقدر کا سکندر؛
سکول میں تقریری مقابلوں میں میرا سب سے بڑا حریف ماسٹر اصغر صاحب کا بیٹا سکندر ہوتا تھا جو مجھ سے ایک سال سینیئر اور مقدر کا سکندر تھا۔ اکثر میں ہی تقریری مقابلہ جیتا تھا لیکن کبھی کبھارشفقت پدری جوش مارتی اور سکندر مقدر کا سکندر بن جاتا تھا۔ ہم دونوں ایک تقریری مقابلے کے لئے سر سید احمد خاں سکول واہ کینٹ گئے۔ یہ1974ء کی بات تھی۔ میں نویں جماعت میں تھا۔ مقیت صاحب بحیثیت انچارج ہمارے ساتھ تھے۔ مباحثہ کا عنوان تھا؛”موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔“ مجھے اس موضوع کے حق میں اور سکندر کو خلاف بولنا تھا۔ ہم نے سید سکول میں ہی قیام کیا تھا۔ اللہ نے کرم کیا اور یہ مقابلہ میں نے جیتا تھا۔مقابلے کے اگلے دن ہم ٹیکسلا میوزیم اور وہاں کے آثار قدیمہ دیکھنے گئے تھے۔ یہ یادگار سفر تھا۔ سکول واپس آئے تو اساتذہ کی نظر میں اللہ نے عزت اور بڑھا دی تھی جبکہ ماسٹر اصغر صاحب کی جیلیسی بھی۔مقیت صاحب ڈی بلاک ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے۔ ایک روز بری خبر ملی کہ گھر سے سکول آتے وقت کسی بد بخت نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔وہ عمدہ استاد اور اعلیٰ ظرف انسان تھے۔ طا لب علموں سے بچوں جیسی محبت کرتے تھے۔اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔
شہباز شریف کی 2باریاں؛
سکول اکثر پیدل آیا جایا کرتے تھے لیکن پھر سائیکل مل گئی کہ چھوٹی بہن فرح کو سکول سے لانے اور چھوڑنے کی ذمہ داری مجھے دی گئی تھی۔ خرم کے پاس بھی سائیکل ہوا کرتی تھی وہ سائیکل کم اور شیطانی سواری زیادہ تھی۔ چلاتے موڑو تو مڑتی نہیں تھی البتہ جب چاہے خود ہی مڑ جاتی تھی۔ سائیکل والا کہتا تھا؛”اس کے کتے فیل ہو گئے ہیں۔“ اب کون مانے گا کہ کتے بھی فیل ہوتے ہیں وہ بھی سائیکل کے۔ہم یہ کتے تو ٹھیک نہ کرا سکے البتہ خرم کو اس شیطانی سواری سے نجات یوں ملی کہ وہ سائیکل کو سٹور کر دیا گیا تھا۔ شیخو بابا(میں پیار سے خرم کو شیخو بابا“ کہتا ہوں) جوانی میں اپنی قریبی کزن کے عشق میں مبتلا ہوا۔ عشق کا ایسا بھوت سوار تھا کہ وہ اُس دور کی کھٹارہ بسوں میں محبوبہ سے ملنے لائل پور جاتا اور شام کو آنکھیں اور دل چار کرکے واپس لاہور پہنچتا۔ اسے نیو سکول کی ایک لڑکی ”سندریلا“ سے محبت ہوئی تھی۔ جسے خط وہ مجھ سے لکھوایا کرتا تھا۔ ایک دن اس یک طرفہ محبت نے بیچ چوراہے ہنڈیا پھوڑ ی اور شیخو کو شرمندگی اٹھا نا پڑی تھی۔ایسے ہی خط میں فیصل وحید کوبھی ا س کی ہمسائی کے لئے بھی لکھ کر دیا کرتا تھا۔ایسی حماقتیں معصوم شراتیں ہی تھیں۔
اس زمانے میں ماڈل ٹاؤن کی کوٹھیوں کی پختہ چار دیواری نہیں ہوتی تھی بلکہ ”کھٹی“ کی باڑ ہوتی تھی جس کے آگے پانی کے کھالے بہتے تھے۔ ایک بار خرم کی سائیکل پر بیٹھے میچ کھیلنے جا رہے تھے کہ شیطانی سائیکل کا ہینڈل خود ہی گھوما اور ہم پانی سے بھر نالے میں جا گرے تھے۔اس زمانے میں ماڈل ٹاؤن میں صرف ایک ہی کرکٹ گراؤنڈ تھی۔ کلب چوک پر۔ ہم کرکٹ کھیلنے بی بلاک بس سٹاپ کے پیچھے چھوٹے سے لان میں پہنچ جاتے تھے۔ اس زمانے میں 5 روپے کا نیا ”فزیکل“ کا کرکٹ بال آتا تھا۔ جس کے لئے ہم سب چندہ جمع کرتے اور خرم کے بڑے بھائی شیخ خاور بی بلاک مارکیٹ میں اعظم کی دوکان سے گیند خرید کر لاتے اور سب سے زیادہ بولنگ بھی خود ہی کرتے تھے۔(یہ اعظم بھی کمال کردار تھا۔اس کے پاس ہر ایٹم ہوتی تھی کچھ بھی خریدنے جاؤ تو پہلے وہ چیزوں کی صفائی شروع کر دیتا، بات سنی ان سنی کرتا کہ جانتا تھا گاہک مجبور ہو کر میرے پاس آیا ہے۔ بے بسی کا خوب فائدہ اٹھاتا اور دام بھی مرضی کے وصول کرتا تھا۔یہ 2بھائی تھے۔ دونوں ہی اب دنیا میں نہیں رہے اور ان کی دوکان بھی اب پھیکا پکوان ہے۔)ایک دفعہ میچ میں اس کی خوب پٹائی ہو رہی تھی لیکن وہ باؤلنگ کرتے جا رہا تھا۔ تنگ آکر باہر بیٹھے ایک آدمی نے آواز لگائی؛”اس باؤلر نے تبدیل نہیں ہونا یہ بال اس کی ہے۔“ خاور کو پھر شاید شرم آگئی اور اس نے خود کو باؤلنگ سے ہٹا لیا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔