خالصتان تحریک: ہندوستان کا وجود خطرے میں!

خالصتان تحریک: ہندوستان کا وجود خطرے میں!
 خالصتان تحریک: ہندوستان کا وجود خطرے میں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارتی سپریم کورٹ نے 1984ء میں سکھوں کے قتل عام کے حوالے سے لانچ کردہ’’ آپریشن بلیو سٹار ‘‘کی سابقہ تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے 3رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر از سر نو تحقیقات کا حکم جاری کیاہے ۔

یہ فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیا ہے۔ یادرہے کہ اس حوالے سے ہونے والی سابقہ تحقیقات کو جانبدارانہ قرار دے کر سکھ قوم نے مکمل عدم اعتماد کا اعلان کیا تھا۔

’’ آپریشن بلیو سٹار‘‘ سکھوں کے لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو گرفتار کرنے کے لئے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر لانچ کیاگیا تھا۔یہ فوجی آپریشن 3جون سے 6جون 1984ء تک جاری رہا ،جس کی کمانڈ جنرل کلدیپ سنگھ کے پاس تھی ۔

اس آپریشن میں فوج اور بھنڈرانوالہ کے حامیوں کے درمیان تین دن تک خون ریز جنگ جاری رہی، جس میں 83 ہندو فوجی اور پندرہ سو سے زائد سکھ مزاحمت کار ہلاک ہوگئے تھے ، جبکہ اس آپریشن کے دوران سکھوں کی سب سے مقدس اور مرکزی عبادت گاہ گولڈن ٹمپل کی عمارت با لخصوص اکال تخت کو شدید نقصان پہنچا تھا ، جس کا دکھ اور غم و غصہ آج 33سال گزرنے کے بعد بھی ہر سکھ کے دل میں روز اول کی طرح بھرا ہوا ہے۔

انڈیا کے شہر امرتسر میں واقع گولڈن ٹمپل کا اصل نام ’’ ہر مندر صاحب ‘‘ یعنی The Abode of Godہے، جسے دربار صاحب بھی کہتے ہیں ۔ سکھوں کے چوتھے گرو’’ رام داس ‘‘ نے سب سے پہلے اس کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اور سکھوں کے پانچویں گرو ’’ارجن دیو جی ‘‘ نے اگست 1604ء میں اس کو مکمل کر وایا ۔

بعد میں پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ’’ہر مندر صاحب ‘‘ کی عمارت کو مکمل طور پر باہر سے سونے کے ساتھ کور کروادیا جس کی وجہ سے اس کا انگلش نام گولڈن ٹمپل مشہور ہو گیا ۔گرو رام داس نے 1577ء میں گولڈن ٹمپل کی تعمیر سے قبل اس کے احاطے میں موجود بڑا تالاب بنوایاتھا ،جو بعد میں امرتسر کے نام سے مشہور ہوا ۔


بعد میں شہر کا نام بھی اس تالاب کے نام پر امر تسر پڑ گیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گرو ارجن دیو جی مسلمانوں کے مشہور صوفی بزرگ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کے گہرے دوست تھے ۔گولڈن ٹمپل کی بنیاد کا پہلا پتھر گرو ارجن دیو نے حضرت میاں میر ؒ کے ہاتھ سے رکھوایا تھا۔


سکھوں کی اس مرکزی عبادت گاہ پر ہونے والے’ آپریشن بلیو سٹار ‘کے بعد پوری دنیا میں موجود سکھوں نے عہد کیا تھا کہ وہ اب زیادہ دیر ہندؤوں کے زیر سایہ نہیں رہیں گے ۔ اس دن سے ہر سکھ کے دل میں اپنے الگ وطن کی خواہش چنگاریاں چھوڑ رہی ہے۔

اسی سلسلہ میں گزشتہ برس6جون017 2ء کو گولڈن ٹیمپل میں منعقد ہونے والی اس سانحہ کی 33ویں برسی کے موقع پر سر عام اسٹیج سے ’’آزاد خالصتان ‘‘ کے نعرے لگائے گئے تھے۔ اس موقع پر نہ صرف امرتسر میں، بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود سِکھ برادری نے اپنے مذہبی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل میں بھارتی افواج کی جارحیت اور سینکڑوں سکھوں کے قتل عام کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے۔ ایسے ہی ایک مظاہرے کے شرکاء سے سکھوں کے رہنماء سردار جسونت سنگھ نے دلی کے چاندنی چوک میں خطاب کرتے ہوئے کہا :آپریشن بلیو سٹار کے بعد ہم سکھوں کو اس بات کا یقین اور ادراک ہوگیا تھا کہ ہندو قوم کبھی بھی سکھوں کی وفادار یا دوست نہیں ہو سکتی۔ اب وہ دن دور نہیں جب ہم خالصتان کی شکل میں اپنے وطن کو ہندوستان سے الگ کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جس طرح گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرنے کا بدلہ ہمارے دو شیر بہادر جوانوں نے اس آپریشن کا حکم جاری کرنے والی ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو گولیوں کے برسٹ مار کر نرک (جہنم )میں پہنچاکر لیا تھا، اسی طرح ہم آزادخالصتان کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کاٹ پھینکیں گے ۔‘‘جس جوش اور جذبہ سے سردار جسونت سنگھ نے یہ سخت تقریر دہلی کے چاندنی چوک میں سینکڑوں لاء انفورسمینٹ ایجنسیز کے اہلکاروں کی موجود گی میں کہی اس سے دہلی کی سرکار ہل کر رہ گئی تھی ۔اپنے علیحدہ وطن ’’خالصتان ‘‘کے قیام کے لیے جسونت سنگھ جیسا جوش اور جذبہ ہر سکھ مرد ، عورت ، بچے اور جوان کے اندر موجزن ہے، جس نے بھارت سرکار کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی ہیں۔

80ء کی دھائی میں جب سکھوں نے اپنے الگ وطن کے لئے خالصتان کی مسلح تحریک شروع کی توان کو ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فوجی آپریشن سے سکھوں کی تحریک سرد ہونے کی بجائے مزید تیز ہوگئی اور سکھوں نے فوجی آپریشن کا جواب 1984ء میں خالصتان کی جلا وطن حکومت کا قیام عمل میں لاکر دیا۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے سکھوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے ہندوستان سے آزادی حاصل کرنا اور ’’آزاد خالصتان ‘‘ کے قیام کو یقینی بنا نا تھا ۔

یہی وجہ ہے کہ اب آزاد خالصتان کا قیام دنیا بھر کے سکھوں کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش بن چکی ہے ۔اگرچہ اندرا گاندھی کی بہو سونیا گاندھی نے 1998ء میں اپنی ساس کی آپریشن بلیو سٹار والی اندوہناک اور عظیم غلطی پر پوری سکھ قوم سے معافی بھی مانگی تھی، لیکن سکھ قوم کا جوش و خروش ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

سکھوں کی اس بڑھتی ہوئی مزاحمت اور علیحدہ وطن کی تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہی ہندوستان کی مرکزی حکومت کے ایماء پر بھارتی سپریم کورٹ نے آپریشن بلیو سٹار کی از سرِ نو تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب یہ آگ ان بچکانہ حربوں سے بجھنے والی ہر گز نہیں۔

اب پاکستان کے ازلی دشمن ہندوستان کا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے زیادہ دیر تک کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ہندوستان میں نہ صرف خالصتان موومنٹ عروج پر ہے، بلکہ تامل ناڈو تحریک ، آسام کی تحریکِ علیحدگی ، تری پورہ کی تحریک ، پروفیشنل فرنٹ کی میزو رام تحریک اور سب سے اہم جموں و کشمیر کی تحریک ہے، جس کو کچلنے کے لیے اب تک ہندو سرکار کے حکم پر سوا لاکھ سے زاید کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور ہزاروں کشمیری ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز تشدد جھیل رہے ہیں۔ ہندوستان میں چلنے والی علیحدگی کی یہ سب تحریکیں دن بہ دن اپنے منطقی انجام کی طرف کامیابی سے بڑھ رہی ہیں اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب ہندوستان کے نام نہاد سیکولر ازم کا نقاب الٹے گا اور اس غاصب ملک کے وجود سے نصف درجن کے قریب نئی ریاستیں وجود میں آئیں گی۔

سرِ دست ہندوستان کے طول و عرض میں چلنے والی یہ تمام تحریکیں ہندوستان کے ’’سب سے بڑی جمہوریت ‘‘ہونے کے دعوے کی اصل حقیقت کو طشت از بام کرنے کے لئے کافی ہیں !!

مزید :

رائے -کالم -