بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ اور ہمارا داخلی انتشار
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھارت کا چھ روزہ دورہ شروع کر دیا ہے،ان کا طیارہ جونہی نئی دہلی ائرپورٹ پر رکا، تمام پروٹوکول بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرح بھارتی وزیر اعظم ان کی طرف لپکے اور گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے اس میں دیکھنے والوں کے لئے واضح پیغام تھا۔
بھارت، اسرائیل سفارتی تعلقات 1992ء میں قائم ہوئے تھے اور کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ پہلا دورہِ بھارت ہے۔ ابھی چند ماہ قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی سربراہ بنے تھے، گویا عشروں تک ڈھکا چھپا تعاون کرنے والے اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
موجودہ دورے کے پہلے دن ہی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت وول کی اپنے اسرائیلی ہم منصب مائر بن شبات سے ساڑھے چار گھنٹے کی ون ٹو ون میٹنگ ہوئی ۔
یہ اجیت وول ہی ہیں جنہیں مودی سرکار نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا ٹاسک دے رکھا ہے، ان کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اور وہ غیر معمولی طور پر متحرک ہیں۔
ان کے معمولات میں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمار اور افغان قیادت سے ہر ماہ ملاقات بہت نمایاں ہے، جس میں پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی منصوبہ بندی اور پھر پاکستان میں موجود ایجنٹوں کے ذریعہ ان پر عمل درآمد کی کوشش کی جاتی ہے۔
نریندر مودی، اشرف غنی اور بنجمن نیتن یاہو کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل آشیرباد حاصل ہے، جس میں ہدف پاکستان ہے۔ مودی، نیتن یاہو ایک شیطانی گٹھ جوڑ ہے جو پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے۔دونوں شیطان اپنی پیاس بجھانے کے لئے مسلمانوں کا خون پیتے ہیں اور دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان انہیں بری طرح کھٹکتی ہے۔
نیتن یاہو کے دورہِ بھارت کا آغاز بیت المقدس میں تین اور کشمیر کنٹرول لائن پر پانچ معصوم مسلمانوں کی شہادتوں سے ہوا۔ چونکہ اس وقت پاکستان کے خلاف ایک گریٹر عالمی الائنس پوری طرح مصروفِ عمل ہے اس لئے اس سے بچنے کا واحد طریقہ پاکستان کا داخلی اور سیاسی استحکام ہے، لیکن بد قسمتی سے ملک کو سیاسی انتشار کی طرف گھسیٹا جا رہا ہے۔
منیر نیازی مرحوم کا مشہور شعر ہمارے آج کل کے حالات پر سو فیصد پورا اترتا ہے کہ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اور ہمیں خود مرنے کا شوق بھی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے حساس صوبہ بلوچستان ہے، کیونکہ وہ پاکستان دشمن علاقائی اور عالمی طاقتوں کے براہ راست نشانہ پر ہے، بلوچ علیحدگی پسند بھگوڑوں کی جو کانفرنسیں یورپ وغیرہ میں ہوتی ہیں ان میں امریکہ اور کینیڈا کے سینیٹرز اور کئی یورپی ممالک کے پارلیمینٹیرین کھلے عام شریک ہوتے ہیں۔
ان حالات میں سب سے زیادہ ضرورت بلوچستان میں عوام کی منتخب حکومت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ضروری تھا، لیکن اس کے برعکس ایسے سیاسی حالات پیدا کر دئیے گئے کہ صوبہ کی سب سے بڑی منتخب پارٹی کے وزیر اعلی کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔
بائیس اراکین رکھنے والی پارٹی مسلم لیگ نواز کا وزیر اعلی گھر چلا گیا اور پانچ اراکین والی پارٹی مسلم لیگ قائد اعظم کا رکن وزیر اعلی بن گیا۔ مان لیا کہ تحریک عدم اعتماد اور وزیر اعلی کی اِن ہاؤس تبدیلی جمہوری عمل کا حصہ ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ نئے الیکشن صرف چند ماہ کے فاصلہ پر ہیں، بلوچستان میں سیاسی انتشار پیدا کرکے کون سے مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ سے جڑا ہے اور ان کے لئے سب سے ضروری بلوچستان میں سیاسی استحکام ہے۔
بلوچستان اس وقت عالمی سازشوں کے نشانہ پر ہے، جس میں کچھ ہمارے اپنے بھی نا سمجھی میں حصہ ڈال رہے ہیں، لیکن پاکستان کے باقی صوبوں کا سیاسی اور غیر سیاسی عدم استحکام ہمارے اپنے لوگوں کا پیدا کردہ ہے، خاص طور پر ملک میں سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم صوبہ پنجاب کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس میں سب سے زیادہ تخریبی کردار بلا جواز دھرنا سیاست نے ادا کیا ہے۔ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں چار سال سے جاری ہیں اور اب الیکشن کے سال میں ان سازشوں میں مزید تیزی آ گئی ہے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا کلچر کو فروغ دے کر ریاست کو کمزور کیا ہے۔ اب 17 جنوری سے دھرنا سیاست کے نئے راؤنڈ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس سے ملکی استحکام کو مزید داؤ پر لگایا جائے گا۔
یہ کون سی سیاست ہے کہ عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے کی بجائے سسٹم کو کمزور کیا جائے۔ اس کا فائدہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری طاقتوں کو تو پہنچ سکتا ہے، لیکن ملک کی کوئی خدمت نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بطور کینیڈین شہری ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، لیکن پاکستانی سیاست میں ان کی حیثیت کینسر زدہ خلئے کی ہے جس کا کام شکست و ریخت ہوتا ہے۔
اگر انہیں پاکستان سے اتنی محبت ہے تو وہ اپنی کینیڈا کی شہریت چھوڑ کر پاکستان کیوں منتقل نہیں ہو جاتے اور مروجہ سیاسی عمل کا حصہ کیوں نہیں بنتے؟ انہیں کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ سات سمندر پار سے نازل ہو کر انتشار پیدا کریں اور پھر دوبارہ کینیڈا جا کر ملکہ برطانیہ سے اپنی وفاداری نبھائیں۔
سیاسی انتشار کی کوششوں کے اس نئے راؤند میں عمران خان اور آصف زرداری بھی ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ آصف زرداری جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں صفایا ہو چکا ہے اور اب وہ بمشکل سندھ کے دیہی علاقوں میں ہی اپنی سیاست کر سکتے ہیں اس لئے وہ پنجاب میں انتشار پھیلا کر نئی انٹری ڈالنا چاہتے ہیں۔
ان کے لئے پنجاب کی سیاست میں دوبارہ مقام بنانا بہت مشکل ہو چکا ہے، کیونکہ پارٹی پنجاب میں اس طرح صاف ہوئی ہے کہ صوبہ کے تقریباً تمام انتخابی حلقوں میں دو چار ہزار سے زیادہ ووٹ لینے کی پوزیشن میں نہیں رہ گئی ، غالباً اسی لئے اب وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ٹانگے میں بیٹھ گئے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے، مسلم لیگ نواز کے بعد تحریکِ انصاف انتخابی سیاست میں پنجاب میں دوسرے نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت ہے، کیونکہ بہت سے الیکٹیبلز ایسے ہیں جب انہیں مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ نہیں ملتا تو سیکنڈ آپشن کے طور پر وہ تحریک انصاف میں چلے جاتے ہیں۔
عمران خان اگر صاف ستھری سیاست کر رہے ہوتے تو 2018 کے الیکشن کی بھرپور تیاری کرتے، اپنی پارٹی کی تنظیمِ نو کرتے ہوئے تمام انتخابی حلقوں میں اپنی پارٹی کی سیاست کو مضبوط کرتے اور مسلم لیگ نواز کا مقابلہ سیاسی اور انتخابی میدان میں کرتے۔
اب بھی وقت ہے کہ عمران خان امپائر اور بابا جی کی طرف دیکھنے کی بجائے الیکشن کی تیاری کریں، لیکن اس کے لئے انہیں سیاسی دماغ سے سوچنا ہوگا اور پیروں، نجومیوں کی بجائے جینوئن سیاست دانوں کے مشوروں کو زیادہ سنجیدگی سے لینا ہو گا۔
عمران خان کو فرزندِ راولپنڈی سے بھی فاصلہ رکھنا چاہئے جو ان کے کندھے پر چڑھ کر قومی اسمبلی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں اور لگاتار انہیں غیر سیاسی مشوروں سے بھٹکائے رکھتے ہیں۔
قاف لیگ بھی سمٹ کر چودھری برادران اور دو چار ساتھیوں تک محدود رہ گئی ہے ، اس لئے وہ اس سیاسی گدھ کی طرح موقع کی تاک میں ہے کہ کب موقع ملے اور وہ مسلم لیگ نواز میں شامل اراکینِ پارلیمنٹ اور سیاست دانوں پر ٹوٹ پڑے۔
جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے، یہ ایک منظم جماعت ہے، لیکن مرحوم قاضی حسین احمد کے بعد اس کا سیاسی کردار بتدریج سکڑتا جا رہا ہے، جس سے سراج الحق کی سیاسی سمجھ بوجھ پر سوالات اٹھنا غیر متوقع نہیں، کیونکہ وہ بھی سیاست میں واپسی کا راستہ بذریعہ انتشار اور دھرنا کلچر ہی دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کے حالات دانستہ طور پر خراب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہزار نظریاتی اختلافات کے باوجود ڈاکٹر حسن ظفر عارف جیسے مارکسی لیڈر کا کراچی میں اچانک مردہ پایا جانا کوئی اچھا شگون نہیں۔ کراچی اور بلوچستان کے بعد اگر پنجاب میں سیاسی انتشار پھیلتا ہے تو یہ ریاست کے لئے سخت نقصان دہ ہوگا۔
بھارت، اسرائیل، افغان (حکومت) گٹھ جوڑ اور اسے حاصل امریکی آشیرباد کا مقابلہ کرنے کے لئے زبردست داخلی سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہو گا۔ گذشتہ برسوں میں مشرقِ وسطی کے کئی ممالک میں عرب بہار (arab spring) کے نام پر شکست و ریخت کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اسے پاکستان تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
اسے بہار کی بجائے خزاں کہنا زیادہ مناسب ہو گا ،کیونکہ جہاں جہاں یہ برپا کیا گیا وہاں قتل و غارت اور جنگ و جدل کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ ان ممالک میں تیونس وہ واحد ملک ہے جو توڑ پھوڑ سے بچا رہا اور جہاں جمہوریت کی نوخیز کلی نے جنم لیا۔
آج کل اس کلی کومسلنے کی ایک بار پھر کوشش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پچھلے کئی دنوں سے وہاں کی منتخب حکومت نے زبردست کریک ڈاؤن شروع کیا ہوا ہے اور تمام شرپسند سیاست دانوں اور ایکٹوسٹوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
تیونس کی حکومت پرعزم ہے اور میرے نزدیک وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں بھی بہار کو خزاں میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے، کیونکہ پاکستان کی بہار بھی مضبوط سیاسی سسٹم سے ہی ہے۔ پاکستان مٰیں سیاسی استحکام قائم رہا تو ہزار نریندر مودی اور نیتن یاہو مل کر بھی پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔