فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر332
ہم اپنی تمام مصروفیات اور پریشانیوں کے باوجود ہر روز ہسپتال جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھ گچھ کرتے تھے اور نعمان بھائی کو تسلی دیتے تھے۔ کبھی کبھی شام کے وقت بھی چکّر لگا لیتے تھے۔
ڈاکٹر مسعود نے اپنی تحقیقات کے بعد ہمیں بتایا کہ وہ گلے کے کینسر میں مبتلا ہیں، ہمارے تو ہاتھ پاﺅں سُن ہوگئے اور ہم وہیں بیٹھ گئے۔ یہ مرض ہی ایسا مہلک ہے کہ نام سُن کر دل بیٹھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ہماری حالت دیکھی تو دلاسا دیا۔ کافی پلائی‘ بہت دیر تک زندگی اور موت کا فلسفہ سمجھاتے رہے۔ وہ خدا جانے کیا کیا باتیں کرتے رہے مگرہمارا ذہن سائیں سائیں کررہا تھا۔ رہ رہ کر نعمان بھائی کی زندگی کے واقعات ایک فلم کی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے پھر رہے تھے۔ دیکھا جائے تو انہیں زندگی نے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ دمے اور سانس کی بیماری کا شکار ہوگئے۔ شاید انہیں اپنی صحت کے اور زندگی کے انجام کا آغاز ہی میں علم ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے قطعی بے پروا اور بے تعلّق ہوگئے تھے۔ انہوں نے ایسی دلچسپیوں میں کبھی حصّہ نہیں لیا جو عام طور پر لڑکوں بالوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے بہت پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے اپنی دنیا ہی سب سے الگ تھلگ بنا لی تھی اور اسی میں مگن ہوگئے۔ جوان ہوئے تو انہیں تعلیم سے بے رُخی‘ عدم دلچسپی اور سب سے پھسڈّی رہ جانے کے طعنے ملنے لگے مگر انہوں نے کبھی ان پر کان نہیں دھرا۔ وہ ہر ایک سے بے نیاز اپنی دنیا میں خوش و خرّم تھے۔ ہمارے والد (آکامیاں) کو ان سے بہت محبت تھی۔ انہوں نے انہیں کبھی سرزنش نہیں کی۔ ان کی مذّمت کرنے کے سلسلے میں دوسروں کی ہم نوائی نہیں کی بلکہ وہ اکثر ان کی طرف داری ہی کرتے تھے۔ شاید وہ نعمان بھائی کی مجبوریوں اور نفسیات سے واقف ہوگئے تھے۔ امّاں نے بھی کبھی نعمان بھائی کو نہیں ڈانٹا۔ نہ کسی بات پر انہیں برا بھلا کہا۔ دوسرے ان کی برائیاں کرتے تو وہ خاموش ہو جاتیں یا پھر ٹھنڈی آہ بھر کر کہتیں ”اللہ کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔“
نعمان بھائی کی مجبوریاں اور محرومیاں ایک ایک کرکے ہمارے ذہن کے پردہ¿ فلم پر چلتی رہیں۔ ہمارا دل بھر آیا اور آنکھیں بھیگ گئیں۔ ڈاکٹر مسعود نے ہمیں بڑے پیار اور رسان سے سمجھانے کی کوشش کی۔ لوگ ہمدردی کے الفاظ کے سوا دوسروں کو اور دے بھی کیا سکتے ہیں؟
کچھ دیر بعد ہوش ٹھکانے آئے تو ہم نے بھرّائی ہوئی آواز میں ان سے پوچھا ”ڈاکٹر صاحب! کیا آپریشن سے یہ ٹھیک ہوجائیں گے۔“
انہوں نے کہا ”دیکھیے۔ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے تو میرا جواب یہی ہوگا کہ ان کا آپریشن ہونا چاہیے مگر ایک دوست اور بھائی کی حیثیت سے میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ ان کی بیماری کافی بڑھ چکی ہے۔ آپریشن سے سوائے اخراجات اور مریض کی تکلیف میں اضافے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ میں آپ کو آپریشن کرانے کا مشورہ نہیں دوں گا۔“
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر331
”تو پھر؟“
”ان کی تھراپی کریں گے۔ انشاءاللہ اس سے فائدہ ہوگا۔“
کچھ دن تو وہ ہسپتال ہی میں رہے پھر ڈاکٹر صاحب کے مشورے پر ہم انہیں گھر لے آئے کیونکہ وہ ہسپتال مں خوش نہیں تھے۔ حالانکہ انہوں نے وہاں نت نئی دلچسپیاں ڈھونڈ لی تھیں۔ ہر ایک سے ان کی دوستی ہوگئی تھی.... سارا دن گپ شپ رہتی تھی مگر وہ گھر جانے کے لیے بے چین تھے۔ ان کی بیڑی نوشی پر ڈاکٹر صاحب نے پابندی عائد کردی تھی مگر جب ان کی بے چینی دیکھی تو یہ پابندی ہٹا دی۔
ہم نے حیران ہو کرپوچھا ”مگر ڈاکٹر صاحب....“
ڈاکٹر صاحب بولے ”دیکھیے آفاقی صاحب! انہیں جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ہے۔ اگردوچار بیڑیاں پینے سے انہیں خوشی اور سکون حاصل ہوتا ہے تو کیا حرج ہے!“
ڈاکٹر مسعود کا تجزیہ بہت حقیقت پسندانہ تھا۔
خدا جانے نعمان بھائی کو اپنی بیماری کی نوعیت اور سنگینی کا علم تھا یا نہیں۔ کم از کم ہم نے تو انہیں بھنک تک نہیں پڑنے دی تھی۔ امّاں کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا مگر وہ بہت ذہین اور حسّاس تھے۔ ہسپتال میں یقیناً انہیں سب کچھ معلوم ہوچکا ہوگا مگر انہوں نے ہم پریا کسی اور پر کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اس راز کو انہوں نے اپنی دانست میں خود اپنی ذات تک ہی محدود رکھا تھا۔ علاج ہوتا رہا۔ تھراپی کا سلسلہ بھی وقتاً فوقتاً جاری رہا مگر نعمان بھائی کی صحت گرتی ہی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ ہڈّیوں کی مالا بن کررہ گئے مگر کبھی نہ کوئی شکوہ نہ شکایت۔ حالانکہ ان کے پاس شکایتوں کی کیا کمی تھی۔ زندگی نے انہیں دیا ہی کیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ توبچپن سے بھی محروم رہے تھے مگر کیا مجال جو حالات کا رونا روتے ہوئے نظر آئیں۔ وہ ہر حال میں راضی بہ رضا تھے۔ نہ کبھی کسی کو جان بوجھ کر دکھ پہنچایا۔ نہ تکلیف دی۔ نہ نقصان پہنچایا۔ حتی الامکان دوسروں کے کام ہی آتے رہے۔ درویش اور کیسے ہوتے ہیں؟
امّاں انہیں دیکھ دیکھ کر کُڑھتی تھیں۔ چپکے چپکے رویا کرتی تھیں۔ انہوں نے ہر طرح کی پابندی ختم کردی تھی۔ سگریٹ‘ بیڑی‘ چائے‘ یہی تو ان کی ضرورتیں تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ وہ جو مانگے دے دیا کرو۔ جوجی میں آئے کرنے دو۔ اس معاملے میں امّاں اور اسپیشلسٹ ڈاکٹرکی تشخیص ایک ہی تھی۔
اِدھر یہ گھریلو پریشانیاں تھیں‘ اُدھر فلم کی مصروفیات اور الجھنیں بڑھتی جارہی تھیں مگر صبح اسٹوڈیو جاتے ہوئے اوررات کو گھرواپس لوٹنے پرہم نعمان بھائی کے پاس ضرور جایا کرتے تھے۔ خواہ رات کے دوہی کیوں نہ بج جائیں۔ وہ بھی انتظار میں رہتے تھے۔ جاگتے رہتے تھے۔ بار بار وقت پوچھتے تھے۔ پھر کہتے ”بھئی بہت دیر ہوگئی۔ امّاں تم بھی اسے کچھ نہیں کہتیں۔ اس طرح صحت کیسے ٹھیک رہے گی؟“
مگر انہوں نے خود کبھی ہم سے کچھ نہیں کہا۔
گُھلتے گُھلتے نعمان بھائی ایک دن چپ چاپ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جواں مرگی ہی کہنا چاہیے ،اس لیے کہ ان کی عمر اس وقت چالیس بیالیس سے زیادہ نہیں تھی۔ امّاں کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں ٹپکا۔ بس وہ چُپ چاپ رہ گئی تھیں۔ اسٹوڈیو میں کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی اور ہم نعمان بھائی کو سپردخاک کر آئے۔ ان کی بیماری کا عرصہ کافی طویل تھا اور اس نے ذہنی طور پر ہمیں ہلکان کردیا تھا۔(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر333 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں