ہچکولوں کے باوجود معیشت درست ڈگر پر ہے
بزنس ایڈیشن
حامد ولید
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک میں معیشت کو درست ڈگر پر ڈالنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے تو ہچکولے کھاتے اس معاشی جہاز لوگ لٹکے لوگ بحفاظت کنارے لگنے کی امید میں مرے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے امدادی پیکج ملنے سے ملک پر قرضوں کی ادائیگی میں توازن کا معاملہ کافی حد تک قابو میں آگیا ہے لیکن ابھی بھی آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لئے ڈیڑھ سو سے دو سو ارب ڈالر کے ٹیکس لگانے پڑیں گے اور اطلاعات کے مطابق حکومت سوچ رہی ہے کہ جنوری کے وسط میں منی بجٹ پیش کردیا جائے گا جس میں موبائل فونوں پر عائد ری چارج ود ہولڈنگ ٹیکس دوبار ہ سے عارئد کردیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر عوام کے لئے دوبارہ سے درد سر شروع ہو جائے گااور حکومت کو کوسنا شروع کردیں گے۔
منی بجٹ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ برآمداتی صنعت کو موجودہ مالی سال کے دوران سیلز ٹیکس ری فنڈ کلیموں میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اگرچہ اس حوالے سے ایف بی آر کے ریجنل ٹیکس آفس اور لارج ٹیکس پیئر یونٹ کے چیف کمشنروں نے گزشتہ ہفتے ایکسپورٹروں سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ حکومت کی جانب سے ہدایات ہیں کہ ان کے ری فنڈ کلیموں کو پراسس کردیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کو منی بجٹ میں ڈیڑسو سے دو سو ارب روپے کے ٹیکس اگلے چھے ماہ میں اکٹھے کرنے ہیں تو ایکسپورٹروں کے ری فنڈ کہاں سے دے گی ۔ اس لئے لگتا ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ اعلان محض ایک اعلان ہی رہ جا ئے گا۔ اس کے علاوہ جہاں تک یکساں قیمت پر گیس کی فراہمی کا معاملہ ہے اس حوالے سے بھی ایکسپورٹ انڈسٹری میں خدشات پائے جاتے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے سوئی نادرن گیس کمپنی لمیٹڈ کو محض 25ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ایکسپورٹروں کو صرف موجودہ مالی سال کے دوران ہی یکساں قیمت پر گیس فراہم ہو گی اور اگلے مالی سال کے آغاز پر ایک مرتبہ پھر انہیں اسی طرح لابنگ کرنا پڑے گی اور اس حوالے سے بھی حکومت کے لئے دوبارہ سے وہ ذرائع پیدا کرنا پڑیں گے۔
ٹیکسوں کی مد میں اطلاعات ہیں کہ ایف بی آر نے حکومت کو انکار کردیا ہے کہ وہ ٹیکسوں کے ٹارگٹ میں مزید اضافہ کرنے سے قاصر ہے ۔ واضح رہے کہ پہلی سہ ماہی کے دوران لگ بھگ 60ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اگر یہ ٹرینڈ اسی طرح جاری رہتا ہے تو اگلی سہ ماہی میں مزید کمی دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس اعتبار سے حکومت کی جانب سے ڈیڑھ سے دو سو ارب روپے مزید ریونیو اکٹھا کرنے کی کوشش رائیگاں جائے گی یا پھر زیادہ سے زیادہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں غریب آدمی پر مزید بوجھ پڑے گا۔چنانچہ اس کے باوجود کہ حکومت کو سعودی عرب اور یو اے ای کی جانب سے امدادی پیکج تو مل گئے ہیں پھر بھی حکومت کو وہ سپیس میسر نہیں ہوگا جس سے عام آدمی کے لئے آسانیاں یقینی بنائی جا سکیں۔ یہ الگ بات کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام کو یہ ریلیف پاس کیا جائے تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس کے باوجود عام آدمی کی زندگی میں بڑی تبدیلی نہیں آسکے گی کیونکہ ملکی معیشت بری طرح جمود کی شکار ہے اور تب تک صورت حال میں بہتری نہیں آئے گی جب تک کہ حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں میں تیزی نہیں آتی اور ملک میں روزگار کے مواقع میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں متعدد منصوبوں کی منظوری دی اور چند اہم فیصلے کیے گئے، وفاقی کابینہ نے چینی مارکیٹ میں داخلے کے لیے پانڈا بانڈز کے اجراء، فرخ سبزواری کو چیئرمین ایس ای سی پی، عامر عظیم باجوہ اور ڈاکٹر خاور صدیق کی ممبر پی ٹی اے تعیناتی، اسٹیل ملز کے واجبات 2019ء تک ادا کرنے، ڈاکٹر عطاء الرحمان کی سربراہی میں ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔
چین پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا اور متعدد ترقیاتی منصوبے اس کے تعاون سے مکمل کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان نہ صرف چین میں ہونے والی ترقی سے فائدہ اٹھانا چاہتا بلکہ وہ اس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات اس نوعیت کے تشکیل دینا چاہتا ہے جس سے پاکستان کو بھی خاطرخواہ معاشی فوائد حاصل ہوں۔ چینی مارکیٹ میں داخلے کے لیے پانڈا بانڈز کا اجراء اس کڑی کا ایک سلسلہ ہے۔
اس کے علاوہ کئی ایسے فیصلے کئے گئے جن سے گھریلو صارفین کیلئے گیس کی کم سے کم وقت میں فراہمی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ اس صورتحال کو قابل فخر کہنا مشکل نظر آتا ہے کہ سال 2018ء اگرچہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے بہت اچھا قرار دیا گیا اور دعوے کی حد تک 25ہزار سے زائد صنعتوں کیلئے لوڈشیڈنگ صفر کر دی گئی لیکن دیہی علاقوں کو ہائی لاسز ایریاز کہتے ہوئے 3سے6گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری رہی۔سال کے ابتدائی مہینوں سے محسوس کی جانے والی اس کیفیت کا تسلسل بعد میں بھی پوری طرح ختم نہیں ہو سکا اور شہروں میں رہنے والے صارفین بھی ایسی مشکلات کے شکار رہے جن کی ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً ناقابلِ فہم توجیہات سامنے آتی رہیں۔وزیراعظم کا ایک اسٹرٹیجک فیصلہ متعلقہ حکام کو دی گئی اس ہدایت کی صورت میں سامنے آیا کہ وہ فرنس آئل کی درآمد پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کریں،اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں اور مستقبل میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کوئلے اور ایل این جی پر کی جائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فرنس آئل کی درآمد پر پابندی تو لگائی تھی مگر نہ صرف اس کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا بلکہ پاور ڈویڑن نے موسم گرما میں اسے بجلی پیدا کرنے کی ضروریات سے منسلک کر دیا تھا جس کے باعث مہنگے فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری رہا۔اب فرنس آئل امپورٹ پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد درآمدی آئل موسم گرما میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔تاہم فرنس آئل کی طلب 2400میگاواٹ سے تجاوز کرنے کی صورت میں مقامی ریفائنریز کا فرنس آئل بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکے گا۔بجلی کی پیداوار کیلئے ایل این جی اور کوئلے پر انحصار بڑھایا جائے گا اور اگلی گرمیوں تک 1200میگاواٹ کا آرایل این جی سے چلنے والا ایک اور بجلی گھر تریموں کے مقام پر کام شروع کر دے گا۔فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری قیمت 16روپے فی یونٹ جبکہ اس کے متبادل کے طور پر ایل این جی کے استعمال سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری قیمت 10روپے بنتی ہے۔ مگر ایک آئینی دشواری کے باعث پنجاب میں مہنگی ایل این جی استعمال ہوتی ہے۔موجودہ حکومت ایل این جی کو گیس نظام میں مکس کر کے اس کے اوسط نرخ مقرر کرنا چاہتی ہے جس کے نتیجے میں گیس کی قیمتیں کم ہوں گی اور ملکی معاشی سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔بظاہر توانائی بحران کنٹرول کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت درست سمت میں بڑھ رہی ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ ان اقدامات اور فیصلوں کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
معروف اقتصادی ماہر اور سابق وزیر تجارت ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کے بقول صرف ایک سال 2016۔17ء میں حکومتی قرضوں کا حجم 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور بیرونی قرضے 83 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 3 ارب ڈالر، پیرس کلب میں شامل ممالک نے 5 ارب ڈالر اور چین نے اپنے تجارتی بینکوں کے ذریعے سی پیک کے مختلف منصوبوں کیلئے اب تک 1.6 ارب ڈالر فراہم کئے ہیں جس سے 6.5 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی گئی اور باقی 3.1 ارب ڈالر بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے ادا کئے گئے۔ ملکی ایکسپورٹس جو زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہیں، 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ بیرونی ذخائر کو بڑھانے کیلئے مسلم لیگ (ن) حکومت نے گزشتہ 4 برسوں میں مجموعی طور پر ریکارڈ 42.6 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لئے جس میں آئی ایم ایف سے ملنے والے 6.2 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں سے 6.54 ارب ڈالر کے قرضے بھی شامل ہیں۔
حکومت کو 2022ء تک تقریباً 5 ارب ڈالر سالانہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ 2017۔18ء میں 6 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں ہیں جس میں سے 2.4 ارب ڈالر کی ادائیگی کردی گئی ہے اور آئندہ 6 مہینے میں 3.6 ارب ڈالر کی مزید ادائیگی کرنا باقی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں قرضوں کا حجم اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ان کی ادائیگی کیلئے قرضوں پر قرضے لئے جارہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ قرضے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز تر کرنے کیلئے لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں پر قرضوں کا بوجھ ان کی جی ڈی پی کے 80 سے 100 فیصد تک ہے حتیٰ کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک مصر، سری لنکا اور بھارت کے قرضے اْن کی جی ڈی پی کے 61 فیصد سے زیادہ
ہیں۔ مثلاً 2017ء4 میں مصر کے قرضے جی ڈی پی کے 93.6 فیصد، سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کے 79.5 فیصد اور بھارت کے قرضے جی ڈی پی کے 67.7 فیصد ہیں۔ اگر یہ قرضے ڈیمز بنانے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے لئے جارہے ہیں اور مکمل ہونے کے بعد منصوبوں سے ہی قرضوں کی ادائیگی ہوسکے تو یہ قرضے ملکی مفاد میں ہیں لیکن ہمارے ہاں قرضے کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے جارہے ہیں نہ کہ معاشی ترقی اور تیز جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کیلئے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
گزشتہ سال ایف بی آر کے 3500 ارب روپے کے ریونیو میں سے 1482 ارب روپے (42.36 فیصد)قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے گئے۔ دوسرے نمبر پر 775.86 ارب روپے دفاعی اخراجات اور تیسرے نمبر پر ترقیاتی منصوبوں کیلئے 661.29 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ تجزیئے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے مقامی قرضوں پر 1,112 ارب روپے اور بیرونی قرضوں پر 1,118.4 ارب روپے سود ادا کئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمارا زیادہ تر ریونیو اور وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی اور سماجی شعبوں
کے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کیلئے ہمارے پاس فنڈز دستیاب نہیں۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہر پاکستانی 46,000 روپے، 2013ء میں 61,000 روپے اور آج ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ ان قرضوں کیلئے ہم نے اپنے موٹر ویز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے اداروں کو گروی رکھواچکے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمت عملی کے تحت مہنگے شرح سود کے قرضے ترجیحاواپس کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں۔
سرخیاں
جنوری کے وسط میں منی بجٹ پیش کردیا جائے گا
منی بجٹ میں دو سو ارب روپے کے ٹیکس لگے تو ری فنڈ کہاں سے دیا جائے گا
آج ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے
تصاویر
وزیر اعظم عمران خان
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر
ٹیکسٹائل انڈسٹری
ایف بی آر