بی این پی (مینگل) کی سیاسی حکمت عملی سے ایم کیو ایم نے فائدہ اٹھا لیا

بی این پی (مینگل) کی سیاسی حکمت عملی سے ایم کیو ایم نے فائدہ اٹھا لیا
بی این پی (مینگل) کی سیاسی حکمت عملی سے ایم کیو ایم نے فائدہ اٹھا لیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

بلوچ نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ بی این پی حکومت کا حصہ نہیں ہے حکومت کی تشکیل کے وقت قائد ایوان کو ووٹ دیا تھا، اپوزیشن بھی جو مثبت سیاست کرے گی اس کا ساتھ دیں گے یہ پوزیشن ایسی ہے کہ اگر ٹھنڈی ہوا حکومت کی جانب سے آئیگی تو وہ اس کے معطر جھونکوں سے لطف اندوز ہوگی اور اگر اپوزیشن جماعتیں اظہار محبت کے لئے آگے بڑھیں گی تو ان کا بھی خندہ پیشانی سے استقبال کیا جائے گا۔ سردار مینگل نے اس طرح حکومت کی جانب کا راستہ بھی بند نہیں کیا اور اپوزیشن کے ساتھ بھی سارے آپشن کھلے رکھے ہیں۔ شاعری کی زبان میں اسے کہتے ہیں ’’باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی‘‘ یا پھر فارسی شعر کا سہارا لیا جائے تو کہا جائے گا۔
معشوق ما بہ شیوہ ہرکس برابر است
باماشراب خورد و بازاہد نماز کرد
لیکن اس سے اتنا سیاسی اثر تو ضرور ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی اپنے سیاسی حلیفوں کے ساتھ رابطے کا خیال آگیا کہ مبادا ان میں سے بھی کوئی ڈھلمل یقین نہ ہو جائے، ایم کیو ایم (پاکستان) کے بعض مطالبات مان لئے گئے ہیں اور کچھ وعدے وعید بھی ہوگئے۔ بی این پی (مینگل) اور ایم کیو ایم (پ) اگرچہ دونوں حکومت کی حلیف جماعتیں ہیں، دونوں نے حکومت کا ساتھ دینے سے پہلے تحریری معاہدے بھی کئے تھے اور ان میں جہانگیر ترین اور ان کے جہاز کا بڑا کردار تھا، ان کے پاس جہاز کی سہولت نہ ہوتی تو یہ رابطے تیز رفتاری کے ساتھ نہ ہو پاتے، سردارمینگل کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ جو تحریری معاہدہ ہوا تھا اس پر عمل نہیں کیا گیا، تاہم یہ کام وہ ہے جو اپوزیشن کے کرنے کا نہیں، اپوزیشن زیادہ سے زیادہ یہ وعدہ کرسکتی ہے کہ وہ ان معاملات پر بی این پی کے ساتھ ہے، کیونکہ گمشدہ افراد کے بارے میں اپوزیشن کا تو زیادہ کردار نہیں حکومت ہی اس ضمن میں کوئی ٹھوس کردار ادا کرسکتی ہے اور یہ کردار اسے اس وقت یاد دلایا جاسکتا ہے جب وہ کسی مشکل میں پھنسی ہو، جونہی یہ مشکل ختم ہوگی وعدے وعید بھی فراموش ہو جائیں گے۔ بی این پی کے پاس کوئی وزارت بھی نہیں اس معاملے میں ایم کیو ایم (پ) فائدے میں ہیں اس کے دو ارکان کے پاس اہم وزارتیں ہیں۔ اب اگر اندرون سندھ اس کے بند دفتر بھی حکومت کھلوا دے تو اسے بھی کامیابی ہی تصور کیا جائے گا۔ بدھ کو وزیراعظم عمران خان سے ایم کیو ایم کی ملاقات مثبت پیش رفت ہے، تاہم ایسی ملاقاتیں ذرا زیادہ ہونی چاہیں اور مشاورت کا عمل بھی جاری رہنا چاہئے ورنہ مشکل ہوگی، مخلوط حکومتوں میں یہ مسائل تو رہتے ہیں۔
دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
بی این پی کے رہنما اگرچہ پہلے بھی یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ حکومت نے ان کے ساتھ تحریری معاہدے پر عمل نہیں کیا لیکن پارٹی کو تازہ گلہ یہ ہے کہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں تحریک انصاف نے ان کے امیدوار کی حمایت نہیں کی، ویسے یہ گلہ زیادہ وزن اس لئے نہیں رکھتا کہ تحریک انصاف نے الیکشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا، بی این پی کے ساتھ تحریک انصاف بلوچستان کی حکومت میں شریک ہے اس لئے اس کی حمایت بھی ضروری تھی ورنہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو شکایت ہوتی، اتفاق کی بات ہے کہ دونوں جماعتیں ہی تحریک انصاف کی حلیف ہیں اس لئے اس معاملے میں توازن قائم رکھنا مشکل تھا، سردار مینگل نے اس معاملے پر ردعمل فوری طور پر اس لئے بھی دے دیا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد گزشتہ روز ہی تشکیلی مرحلے سے گزرا اور بی این پی نے اس اجلاس میں شرکت کرلی۔
اپوزیشن اتحاد کا فوری ردعمل یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی ایمرجنسی میں طلب کرلیا گیا جس کی صدارت وزیرخزانہ اسد عمر نے کی۔ اجلاس کے شرکا نے گلہ کیا کہ وفاقی وزراء اور ارکان اسمبلی میں رابطے کا فقدان ہے جب سے تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے ارکان کے ساتھ رابطے ختم کردیئے گئے ہیں، جنوبی پنجاب کے ارکان جن سے حکومت کے پہلے سو دنوں میں جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ کیا گیا تھا یہ گلہ کرتے پائے گئے کہ اگر ارکان کے ساتھ وزراء کا یہی رویہ رہا تو اگلے انتخابات تک جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف فارغ ہو جائے گی۔ ویسے تو معاملات صوبے کی بجائے سیکرٹریٹ تک آپہنچے ہیں اور اگلے چھ ماہ میں ریجنل سیکرٹریٹ تعمیر کرنے کیلئے اقدامات شروع کئے گئے ہیں جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ اب تحریک انصاف کی ترجیح نہیں رہا، اگر ایسا ہوتا تو صوبے کے لئے اقدامات کئے جاتے، ریجنل سیکرٹریٹ کے لئے نہیں، پارلیمانی پارٹی کے چیف وہپ عامر ڈوگر بھی وزراء کے رویئے پر شکوہ کناں پائے گئے، ان کا کہنا تھاکہ پارٹی کے امور میں وزراء کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ آج کے اجلاس میں بھی بعض وزراء نے شرکت ضروری نہیں سمجھی، اسد عمر ، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک نے رابطوں کی ضرورت کا اعتراف کیا اور وزیر دفاع نے کہا کہ ہفتے میں ایک دفعہ وزراء ارکان پارلیمینٹ کو بریفنگ دیں گے۔ پارٹی کے بعض ارکان اجلاس کے بعد یہ کہتے پائے گئے کہ اگر بی این پی نے کل کے اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت نہ کی ہوتی تو پارٹی اس طرح کے کسی اجلاس کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہ کرتی، اس لئے پارٹی اجلاس کا کریڈٹ بی این پی کو دیا جانا چاہئے۔
فائدہ

مزید :

تجزیہ -