روزنامہ ”پاکستان“ قیمتی اثاثہ سے محروم ہو گیا

روزنامہ ”پاکستان“ قیمتی اثاثہ سے محروم ہو گیا
 روزنامہ ”پاکستان“ قیمتی اثاثہ سے محروم ہو گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج مَیں اپنے بڑے بھائیوں سے زیادہ پیار دینے والے اپنے محسن روزنامہ”پاکستان“ کے ایڈمنسٹریٹر جمیل قیصر سے محروم ہو گیا ہوں۔ 2001ء سے2020ء تک کا طویل سفر پلک جھپکنے میں گزر گیا، کوئی مانے یا نہ مانے16جنوری 2020ء کو روزنامہ ”پاکستان“ ایک قیمتی اثاثہ سے محروم ہو گیا ہے، اس حد تک مخلص24گھنٹے ادارے کی باتیں، اس کی بہتری کی باتیں،ان کی زیر نگرانی کام کرتے ہوئے20سال کا عرصہ ہو گیا، کبھی ایسا موقع نہیں آیا،ان سے گِلا کیا جا سکے۔ روزنامہ ”پاکستان“ اگر مجیب الرحمن شامی، عمر مجیب شامی کے نام سے پہچانا جاتا ہے تو مَیں کہنے میں حق بجانب ہوں کہ پنجاب میں بالعموم اور ملک بھر میں بالخصوص جمیل قیصر روزنامہ ”پاکستان“ کی پہچان بن چکے تھے،مَیں اکثر اظہار کرتا رہتا ہوں کہ ہمارے ادارے روزنامہ ”پاکستان“ کے مالکان بڑے خوش نصیب ہیں، جن کو جمیل قیصر، ارشد محمود، عتیق بٹ جیسے مخلص کارکنان ملے ہوئے ہیں،جو روزنامہ ”پاکستان“ کے ساتھ جینے مرنے کا عہد کر چکے ہیں اور زندگی مقصد اور جینا مرنا اوڑنا بچھونا روزنامہ ”پاکستان“ کو بنا رکھا ہے۔

نمائندگان کے انچارج ہونے کی وجہ سے جمیل قیصر کی مخصوص پہچان تھی، وکیل نہ ہونے کے باوجود عدالتی امور کو وکیلوں سے زیادہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی درجنوں ایسے معاملات ہوتے ہیں جن کو خود ہی دن رات ایک کر کے حل کر لیتے تھے تاکہ مالکان کو پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ جمیل قیصر کی دبنگ زندگی کے رموز ان کے قریبی ساتھی اور استادِ محترم رشید قمر صاحب بتاتے ہیں۔ جمیل قیصر صاحب1982ء میں فیصل آباد سے لاہور آئے تو مَیں روزنامہ ”جنگ“ میں کتابت کے شعبہ کا ہیڈ تھا، مَیں نے جمیل قیصر صاحب کو میر شکیل صاحب کی اجازت سے اپنا نائب رکھ لیا، میری عدم موجودگی میں تمام امور کی نگرانی کرتے تھے، نئے ہونے کے باوجود چند دِنوں میں ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

رشید قمر صاحب بتاتے ہیں مَیں نے اپنے شعبہ میں نماز کے حوالے سے لکھ کر لگا دیا کہ نماز پڑھا کریں، فرض ہے نہ پڑھنے والا خود ذمہ دار ہو گا،میری تحریری پڑھنے کے بعد نماز میں ملازمین کی دلچسپی بڑھ گئی، میر شکیل صاحب کے علم میں آیا تو انہوں نے اپنے ماموں جو ایڈمنسٹریٹر تھے عبدالرب صاحب ان سے رپورٹ مانگ لی،اس وقت کچھ مخالفین نے ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا،نوائے والوں کے جاسوس ہیں روزنامہ ”جنگ“ کا ماحول خراب کرنے آئے ہیں۔ میر شکیل صاحب نے مجھے بُلا کر کہا آپ ادارہ چھوڑ دیں، جب مجھے نکالنے کی خبر کمپیوٹر اور دیگر شعبوں میں پہنچی تو بونچال آ گیا،احتجاج شروع ہو گیا، 119افراد کو روزنامہ ”جنگ“ سے نکال دیا گیا،ایک سال عدالتی جنگ لڑی اور تمام ملازمین کو بحال کروانے کے ساتھ ساتھ تنخواہیں بھی دلائیں، پھر مَیں نے استعفیٰ دے دیا،جمیل قیصر صاحب 1983ء میں جنگ میں ورکر یونین کے صدر بن گئے۔


”حقیقی ٹریڈ یونین“ ورکر کی عزت کی بحالی، ان کی ملازمتوں کا تحفظ یقینی بناتے رہے۔ رشید قمر کے ساتھ کا قلبی تعلق رہا ہے، اب بھی ان کو استاد کا درجہ دیتے ہوئے ہمیشہ احترام سے نام لیتے ہیں، رشید قمر فرماتے ہیں ان کے ساتھ گزرے ہوئے دِنوں پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اگر مختصر انداز میں کہا جائے جمیل قیصر ایسا پھولوں کا گلدستہ تھا، جہاں گیا خوشبو دیتا رہا۔ رشید قمر صاحب بتا رہے تھے جب روزنامہ ”دن“ میں محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ گئے اور پھر روزنامہ ”پاکستان“ میں آ گئے،مَیں نے شامی صاحب سے کہا جمیل قیصر کی شکل میں آپ کو قیمتی ہیرا مل گیا ہے اِس کو ضائع نہ ہونے دینا۔راقم کے ساتھ 20 سال سے محبت کا ایسا تعلق رہا،جو ان کی زندگی کے آخری ہفتوں میں بہت ہی قیمتی ہو گیا وہ روزنامہ ”پاکستان“ کے ایڈمنسٹریٹر تھے، ان کا دِل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا تھا،بے شمار ایسے مواقع آئے کہ انہوں نے روزنامہ ”پاکستان“ کے مالکان کی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے ان کے وقار میں اضافہ کے لئے بیشتر لوگوں کو اپنے خلاف کر لیا،ان میں میرے قریب سے دیکھنے کے بے شمار واقعات ہیں، محترم اطہر مسعود صاحب، محترم ایثار رانا صاحب سمیت دیگر شخصیات کے ساتھ ان کا احترام کا تعلق ہونے کے باوجود ادارے کی پالیسی کے ترجمان اور محافظ ہونے کی حیثیت سے بُرا بنتے رہے۔ادارے کے وقار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

گزشتہ چند سال سے مَیں اور فاروق صاحب محترم جمیل قیصر صاحب اور عتیق بٹ صاحب کو عمرہ کے لئے بھیجنے کا پروگرام بناتے چلے آ رہے تھے، سچی بات ہے مَیں نے گزشتہ چارسال کی حرمین شریفین کی حاضری میں دونوں شخصیات کو بالعموم اور دیگر افراد کو دُعاؤں میں یاد رکھا اور ساتھ سربسجود رہا اے اللہ جن کے دیرمیان غلط فہمیاں ہیں ان کو دور فرما اور ادارے کے افراد کو ایک دوسرے کے لئے اخلاص والا بنا دے، ان افراد کو اپنے گھر بُلا لے،محترم فاروق صاحب کے جمیل قیصر صاحب کے ساتھ زیادہ گھریلو مراسم تھے وہ مسلسل اِس مشن میں لگے رہے، ستمبر میں مجھے خوشخبری سنائی تیاری کر لو جمیل قیصر صاحب کو عمرہ پر بھیجنا ہے۔ فاروق بھی دھن کا پکا نکلا، فرمانے لگا جمیل قیصر تو مان گئے ہیں، عتیق بٹ صاحب آپ کے ذمہ ہیں، بلاوے کی بات ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹکٹ ہو گئے، ویزہ لگ گیا، مجھے براہِ راست کہنے کی بجائے فاروق صاحب کے ذریعے کہتے رہے، لگتا ہے میاں صاحب سرپرائز دیں گے،وہی ہوا اللہ نے کرم کیا تو مَیں پاسپورٹ ہوٹل ووچر لے کر ان کے کمرے میں گیا اور کہا مبارک ہو، میری خواہش کے مطابق آپ اپنے بیٹے سے دبئی میں ملنے کے بعد آپ مدینہ منورہ آئیں گے،وہاں آپ کے لئے اللہ نے فائیو سٹار ہوٹل کا بندوبست کر دیا ہے پورا شیڈول دیا تو خوش ہو گئے، پھر مدینہ منورہ رہے، مکہ مکرمہ کی فضاؤں کے مزے لیتے رہے،میرے دوست ان کی جگہ ان کی خدمت میں پیش پیش رہے، بڑے خوش، اتنے خوش، بار بار مجھے شرمندہ کرتے رہے میاں صاحب آپ نے ہمارے دِل جیت لئے ہیں، اتنا کوئی نہیں کرتا جتنا آپ نے کیا ہے، پھر ہم ان کے گھر گئے، پھر حرمین شریفین کی یادیں، پھر ڈھیروں تحائف لے کر میرے گھر آئے، بیگم ساتھ تھیں اتنے نہال نہ جانے کس کی نظر لگ گئی،دسمبر میں پریشان نظر آئے۔

دلچسپ بات یہ ہے عمرہ کی سعادت پر جانے سے پہلے ہر فرد کے پاس گئے، محترم ایثار رانا صاحب کے ساتھ خصوصی ملے، معافی مانگتے مانگتے دُعاؤں کی درخواست لیتے لیتے آج خود امر ہو گئے ہیں۔ سروسز ہسپتال میں محترم ارشد صاحب، ملک منظور صاحب، محترم جاوید اقبال صاحب کے ساتھ روزانہ ان کے پاس حاضری ہوتی رہی،مگر کیا پتہ تھا حرمین شریفین میں اپنے رب سے کیا وعدہ کر کے آئے تھے، ہمارا دوست سروسز ہسپتال کے بیڈ پر بھی اپنے بھائی منیر عمران کی باتیں کرتے رہے، پھر ان کی خواہش پر اُنہیں فیصل آباد منتقل کر دیا گیا، چھ دن کے مختصر وقت میں یاروں کا یار جمیل قیصر ہمیں جدائی کا غم ہمیشہ کے لئے دے گیا،ان کے تاریخی نمازِ جنازہ سے اندازہ ہوا ان کا اس عارضی دُنیا میں کتنا تعلق تھا، اللہ اُن کی آخری منزل کو آسان بنائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین

مزید :

رائے -کالم -