دل نظر تنگ نہ ہو، اچھا ہے…… اب کبھی جنگ نہ ہو، اچھا ہے

دل نظر تنگ نہ ہو، اچھا ہے…… اب کبھی جنگ نہ ہو، اچھا ہے
دل نظر تنگ نہ ہو، اچھا ہے…… اب کبھی جنگ نہ ہو، اچھا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پہلی عالمی جنگ،یعنی جنگ عظیم اول کا آغاز یورپ میں ہبزبرگ آرک ڈیوک فرانسس فرڈیننڈ کے قتل سے ہوا۔ یہ جنگ اگست 1914ء میں شروع ہوئی۔ جرمنی، ہنگری، آسٹریا، ترکی اور بلغاریہ ایک طرف، جبکہ دوسری طرف برطانیہ، روس، فرانس، رومانیہ،اٹلی، جاپان، پرتگال اور امریکہ تھے۔ 11 نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کر دی۔ دوسری عالمی جنگ کا باقاعدہ آغاز یکم ستمبر 1939ء کو جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے ہوا۔برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔اس جنگ میں 61 ممالک نے حصہ لیا۔ تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی اور 5 کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے……دنیا اس وقت تیسری عالمی جنگ کے خطرات میں گھری ہوئی ہے، لیکن میرا خیال ہے،اس وقت ایران، امریکہ تنازع تیسری عالمی جنگ کا سبب نہیں بن سکتا۔ انتخاب کے قریب امریکہ خطے میں اپنے کسی بھی فوجی نقصان سے گریز کرے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر جنرل قاسم سلیمانی کا قتل در اصل امریکی حماقت ہے،جو امریکی صدر کی فطرت کا شاخسانہ ہے۔

یہ چنگاری بھڑکنے میں وقت نہ لیتی، اگر امریکی عوام ٹرمپ کے جنگی جنون کے خلاف نہ ہوتے۔جب امریکہ اور کوریا کے درمیان جوہری تنازع پر حالات کشیدہ ہوئے، تب بھی تیسری عالمی جنگ کے خطرات کا اظہار کیا گیا تھا ……قانون کی بین الاقوامی شہرت کی حامل ماہر اور نوٹرڈیم لاء سکول میں قانون کی پروفیسر میری ایلین اوکونیل کا اس کے قانونی اثرات کے بارے میں کہنا ہے:”کبھی بھی پیشگی دفاع کسی کی ہلاکت کا قانونی جواز نہیں ہوتا، بلکہ اس کا کوئی جواز ہوتا ہی نہیں“۔ یہ قانون اقوامِ متحدہ کا چارٹر ہے، جس کے مطابق کسی حقیقی مسلح حملے کا ردِعمل دینے کا حق ہی اپنا دفاع کہلا سکتا ہے،لہٰذا جنرل قاسم سلیمانی کاعراق میں قتل امریکہ میں کسی حملے کا رد عمل نہیں، نہ ہی ایران نے امریکہ میں جا کر کوئی کارروائی کی، اس لئے سلیمانی کا قتل امریکی صدر کی حماقت اور کھلی جارحیت قرار دیا جا سکتا ہے۔


ایران امریکہ کشیدگی میں، جس دلدوز سانحہ نے جنم لیا، وہ آٹھ جنوری کو تہران کے ہوائی اڈے سے اڑان بھرنے والایوکرائنی طیارہ ہے،جو انسانی غلطی کا شکار ہوا، جس میں سوار تمام افرادجان سے گئے۔ یہ طیارہ تہران سے یوکرائن کے دارالحکومت جا رہا تھا،جو پرواز کے محض آٹھ منٹ بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے گرنے کی اطلاعات اس وقت آئی تھیں، جب ایران جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جوابی کارروائی میں عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کر رہا تھا۔ایران و عراق کی شیعہ اکثریتی حکومت کا قریبی اتحادی ہے،جبکہ امریکہ کے تقریباً پانچ ہزار فوجی عراق میں مخالفین کو شکست دینے کے لئے موجود ہیں۔ شام میں ایران کا اتحادی روس ہے جو امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایک خبر کے مطابق یورپی سرحدوں پر امریکہ اور روس کی فوج کی موجودگی کے بعد جرمنی نے اپنے سینکڑوں فوجیوں کو بالٹک ریجن میں روسی سرحد پر تعینات کر دیا ہے، جبکہ نیٹو افواج کا 500 فوجیوں پر مشتمل دستہ لتھوانیا کی سرحد پر تعینات کیا جا رہا ہے۔ دستے میں بلجیم، نیدر لینڈ اور جرمنی کے فوجی شامل ہیں۔ جرمن فوج کے دستے کے کمانڈر کرسٹوف ہوبرکے مطابق تعینات فوجیوں کو بھرپور ٹریننگ کے بعد نئی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ جرمنی کی 122 بٹالین انفینٹری کے جوانوں کے ساتھ 26 لیپرڈ2- ٹینک اور 170 آرمرڈ وہیکلز بھی لتھوانیا کی سرحد پر تعینات کئے گئے ہیں، جو ہر طرح سے چاق و چوبند ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی نے جنگ بند کر کے صلح کی درخواست کر دی تھی، لیکن شائد پچھلی غلطیوں سے کوئی بھی سبق لینا نہیں چاہتا۔

پھر بھی تھرڈ ورلڈ وار اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک روس براہ راست امریکہ کے سامنے نہ آ جائے یا روس و چین اور امریکہ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے نہ ہوجائیں، البتہ ہمیں اپنی سرحدوں پر چوکنا رہنا ہے، کیونکہ ہمارا ازلی حریف بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر خدانخواستہ ہمیں گھاؤ لگانے کے لئے بے تاب ہے۔


بھارتی آرمی چیف کا حالیہ بیان اور آئے روز بھارتی حربے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔نئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نروا کا بیان ہے کہ ”سرحد پار پاکستانی سر زمین میں حملے کا حق ہے“ جس نے تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ اسرائیلی طیارے، اسلحہ اور فوج کتنی بار پاکستان پر خدانخواستہ حملہ کرنے کے لئے بھارت کے ہوائی اڈوں پر آ پہنچے۔پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کئے تو اسرائیل بہت تلملایا تھا۔ اسے پاکستان سے بے سبب جوہری خطرات رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرا ئیل نے بارہا پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا،جس کی معاونت بھارت کرتا رہا۔ 1990ء کی دہائی میں اوسلو معاہدے کے بعد پاکستان نے اسرائیل کے معاملے میں لچک دکھائی، لیکن اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں پاکستانی نرم رویوں کے آگے آ کھڑی ہوئیں۔ اسرائیل،بھارت مل کر پاکستان پر میزائل حملے کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کو بھارت کے حملے کی انٹیلی جنس اطلاع مل گئی تھی، جس پر پاکستان نے بھارت کو واضح پیغام دے کر اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ بھارت ہمارے شہروں میں بھی دہشت گردانہ حملے کرنا چاہتا ہے،جس کی پاکستان نے عالمی قوتوں اور دوست ممالک کو اطلاع کر دی ہے۔

بہت سال پہلے بھارتی پارلیمنٹ میں ایک قرار داد پیش کی، جس کے مطابق جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کو ایک قراردیا گیا۔ اس حوالے سے بھی حملوں کے منصوبے بنائے گئے۔ اس وقت ہم دنیا کے مسائل کو سلجھانے میں لگے ہیں، ہمیں اپنے معاملات پر بھی فوکس کرنا چاہئے۔ بھارتی دھمکیوں پر پاکستان کے وزیر خارجہ کو اپنے معاملات کے لئے متحرک ہونا چاہئے۔ پاکستان ہمیشہ قیام امن کے لئے کو ششیں کرتا رہا ہے،جس کی راہ میں بھارتی ہٹ دھرمی حائل ہوئی ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ کو چاہئے کہ وہ اپنے دورہئ امریکہ میں بھارتی مذموم عزائم پر بات چیت کریں،کیونکہ کشمیر کاز پر ابھی تک ہم نے باتوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا، جبکہ بھارت بہت کچھ کر چکا ہے اور کررہا ہے۔ خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لئے پاکستان کا کردار لائق تحسین ہے، تاہم بھارتی جنگی جنون تیسری عالمی جنگ کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ افواج پاکستان تو دشمن کا غرور توڑنے میں مہارت تامہ رکھتی ہیں، مگر ہمارے حکمرانوں کو بھی سیاسی بصیرت سے کام لینا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -