ایران امریکہ تنازع اور ٹرمپ کی انتخابی مہم

ایران امریکہ تنازع اور ٹرمپ کی انتخابی مہم
ایران امریکہ تنازع اور ٹرمپ کی انتخابی مہم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایران کے قومی ہیرو جنرل قاسم کی امریکہ کی جانب سے بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا رہنماؤں سمیت ہلاکت کے بعد دو ہفتے گزر چکے ہیں، اس کے باوجود صورت حال بہت کشیدہ اور خاصی مبہم ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اس حملے کی اجازت دی تھی، کیونکہ ایران امریکی سفارت خانے کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش میں تھا۔ اس کے رد عمل میں ایران نے عراق میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا، جس میں مالی نقصان تو یقیناً ہوا ہو گا، لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ دو اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا جائے، لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہو؟ اس بارے میں کئی طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

کچھ کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بارے میں ایران نے عراق کو قبل از وقت مطلع کر دیا تھا، اس طرح یہ معلومات امریکہ تک بھی پہنچ گئیں، چنانچہ اس نے اپنے آدمی ان اڈوں سے نکال لئے۔ قیاس آرائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایک قیاس آرائی یہ کی گئی کہ امریکہ نے ایران کو خود موقع دیا کہ اپنا غصہ اتار لے، اور اپنے عوام میں اپنی فیس سیونگ کر لے، کیونکہ امریکہ اگر چاہتا تو اس میزائل حملے کے خلاف اپنا اینٹی میزائل سسٹم استعمال کر سکتا تھا۔ اس میزائل حملے کے بعد بظاہر خاموشی سی چھائی ہوئی ہے اور امریکہ نے ایران پر پابندیاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیر مشروط مذاکرات کی بھی پیشکش کی ہے…… لیکن سوال یہ ہے کہ کس بات کے مذاکرات؟…… جبکہ نہ تو امریکہ عراق سے نکلنے اور نہ اپنی پالیسیوں کے حوالے سے کسی کو سپیس دینے کے لئے تیار ہے،جبکہ اس خطے کی صورت حال اور ایٹمی اسلحے کے حوالے سے منسوخ کئے گئے ایران امریکہ معاہدے کا معاملہ بھی وہیں کا وہیں ہے؟


ان سارے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیں تو ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ پھر جنرل قاسم سلیمانی پر میزائل حملے اور ایران کی جانب سے اس پر ظاہر کئے گئے رد عمل کے بعد چھائی خاموشی کا کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ یہ کہ ایک ہی رد عمل سے امریکی جارحانہ طرز عمل جھاگ کی طرح بیٹھ گیا یا پھر یہ خاموشی کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ ہے؟……اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ اپنی مخاصمت کو بالکل انہی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، جن مقاصد کے لئے بھارت پاکستان کے ساتھ اپنی مخالفت یا دشمنی کو استعمال کرتا آیا ہے۔ یہ حقیقت اب سب پر واضح ہو چکی ہے کہ مودی نے ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لئے پلوامہ کا ڈرامہ رچایا اور پاکستان مخالف بیانات سے ہندوؤں کا جذباتی استحصال کیا۔ اب بھی، جبکہ بھارت میں ایک غیر انسانی قانون بنائے جانے کی وجہ سے احتجاج اور دھرنے ہو رہے ہیں تو آزاد کشمیر پر بھارتی جارحیت کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے مقاصد بھی ایسے ہی ہیں …… یعنی امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو در پیش مواخذے کا خطرہ…… 2020ء امریکہ میں صدارتی انتخابات کا سال ہے اور ہر سابقہ صدر کی طرح ٹرمپ کی بھی خواہش ہے کہ وہ دوبارہ صدر بن جائیں، لیکن انہیں اس حوالے سے دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے…… پہلا یہ کہ ٹرمپ کی عوامی حمایت میں بے حد کمی آ چکی ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں، جیسے ان کے چار سالہ دور اقتدار میں ان کی سیاسی و سفارتی ناتجربہ کاری کے سبب امریکہ عالمی منظرنامے پر بہت کچھ کھو چکا ہے اور دنیا یونی پولر سے ایک بار پھر ملٹی پولر بنتی جا رہی ہے۔ چین اور روس امریکہ کے مقابلے میں بالترتیب اقتصادی اور فوجی طاقت بن چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے غیر ضروری بیانات اور اقدامات کی وجہ سے امریکہ کو کئی محاذوں پر ناکامی و خجالت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اقتصادی طور پر بھی کمزور ہوا ہے اور عالمی برادری میں اس کی ساکھ بھی بے حد متاثر ہوئی ہے۔

دوسرا مسئلہ ٹرمپ پر مواخذے کی لٹکتی تلوار ہے۔ اس مواخذے کی وجہ بے حد دلچسپ اور کسی حد تک نا قابل یقین ہے۔ امسال 3 نومبر کو ہونے والے امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کا مقابلہ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن (جوزف روبینیٹے بائیڈن) سے ہو گا…… جو بائیڈن صدر اوباما کے دور میں نائب صدر رہ چکے ہیں اور اس کا ایک بیٹا ہنٹر بائیڈن 2014ء سے 2019 ء تک یوکرائن کی قدرتی گیس پیدا کرنے والی ایک بڑی فرم میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر رہا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوبائیڈن پر اپنی صدارتی مہم کے لئے فارن فنڈنگ سے فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس سلسلے میں پیسہ یوکرائن سے آیا۔ امریکی انتخابی قوانین کے مطابق صدارتی مہم میں بیرونی فنڈنگ کی ممانعت ہے۔ بجائے اس کے کہ اس معاملے کو امریکہ کے اندر ہی رکھا جاتا اور بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی کوشش کی جاتی، ٹرمپ نے اپنے ملکی قوانین کا پاس نہ رکھتے ہوئے یوکرائن کے صدر سے بات کی اور تفتیش کا مطالبہ کر دیا…… چونکہ الزام امریکہ میں لگایا گیا تھا، لہٰذا تحقیقات کی ذمہ داری ایف بی آئی کی بنتی تھی،

چنانچہ تحقیقات کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے، قوانین توڑنے اور یوکرائن کی امداد بند کرنے کی دھمکی ایسے الزامات پر ٹرمپ کے مواخذے کی بات چل رہی ہے اور قوی امکان یہی ہے کہ وہ اسی صدارتی دور میں نا اہل قرار دے دیئے جائیں گے۔ ٹرمپ اس مواخذے کی کارروائی سے بچنے اور عوامی توجہ ہٹانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے اور یہ ”کچھ“ اس نے ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کا جنرل سلیمانی پر حملے کی صورت میں پرچار کرکے کیا۔ اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ انتخابات سے قبل کچھ ایسا ہو گا۔ ویسے بھی امریکی تاریخ یہی رہی ہے کہ اس کے صدر انتخابات میں کامیابی کے لیے جنگ چھیڑنے تک سے باز نہیں آتے، چاہے پھر جنگ میں پورا ملک جھونک دیا جائے۔ ٹرمپ تو ان سب میں سب سے زیادہ جارحانہ مزاج والے امریکی صدر ہیں، چنانچہ کچھ بھی بعید نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -