بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج جاری
نئی دہلی(ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارت میں قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک کے مختلف حصوں سمیت شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، خوریجی اور جعفرآباد میں بھی سخت سردی کے باوجود احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور اس کا دائرہ بڑھ کے ملک کے کو نے کونے میں پہنچ گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کلکتہ میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف خواتین کے احتجاج میں مزید شدت آگئی ہے ۔ کلکتہ میں خواتین کی جانب سے نکالی گی ریلی میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے شرکت کی ،شہر کے اردو اکیڈمی سے گاندھی مجمسے تک ریلی نکالی گی ،ریلی میں شامل مسلم پرسنل لا بورڈ کی ممبرعظمی عالم نے سی اے اے کو ملک کے دستور کے خلاف بتاتے ہوے اس قانون کو ملک کے تمام لوگوں کے لے نقصان دہ قرار دیا ۔ اُنہوں نے اس قانون کو ملک کی جمہوریت کے خلاف بتایا اور حکومت سے اس قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔ ریلی میں ہر عمر کی خواتین شریک تھیں ۔کلکتہ میں گزشتہ دس دنوں سے شہر کےپارک سرکس میدان میں خواتین کادھرنابھی جاری ہے،خواتین اس اہم مسئلہ پرحکومت کےسامنے اپنا احتجاج درج کرارہی ہیں ۔کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف خواتین سڑکوں پراتریں اوراحتجاجی جلسہ منعقد کیا۔ احتجاجی جلسہ کے ذریعہ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ خواتین ملک اور ملت کے موجودہ حالات کو بخوبی سمجھیں،تعلیمی، سماجی مسائل کے حل کیلئے خواتین بھی آگے آئیں۔
علاوہ ازیں بھارت میں ریاست کیرالہ کے بعد پنجاب نے بھی مودی سرکار کے متنازع شہریت ترمیمی قانون کیخلاف قرارداد منظور کرکے متنازع قانون کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست پنجاب کی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس میں عام آدمی پارٹی اور لوک انصاف پارٹی کے اراکین کی جانب سے پیش کردہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے کیخلاف قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین نے قراراداد کی مخالفت کی۔مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی جماعت شیرومانی اکالی دل نے قرارداد کی مخالفت کی لیکن شہریت ترمیمی ایکٹ میں تبدیلی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نے شہریت ترمیمی ایکٹ میں دیگر مذہبی اکائیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔قراداد میں کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون 2019 متنازع اور غیر آئینی قانون ہے جو بھارت کے سیکولر ازم کے دعوے پر بدنما داغ بن کے ابھرے گا اور اس قانون سے جمہوریت اور جمہوری رویے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس قانون کیخلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جائے گا،شہریت ترمیمی ایکٹ کیخلاف قرارداد کی منظوری کے بعد پنجاب اسمبلی کیرالہ کے بعد دوسری ریاست بن گئی ہے۔
شہریت ترمیمی قانون میں 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آنے والے بنگلا دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھوں کو انڈین شہریت دینے کی تجویز دی گئی ہے تاہم مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے۔