جنت بی بی....گو ٹو ہیل

جنت بی بی....گو ٹو ہیل
 جنت بی بی....گو ٹو ہیل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے تو چِڑ ہے ایسے لوگوں سے آپ کو بھی ایسے بے رونق چہرے ملیں تو نظر انداز کر دیجئے گا۔ہم نے ایک روشن معاشرے کی تعمیرکرنی ہے،نیا پاکستان بنانا ہے،جہاں روشنی ہی روشنی ہو،کوئی غریب نہ ہو محتاج نہ ہو،ہم الحمداللہ اس روشن ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔آپ جلد دیکھیں گے پاکستان میں کوئی غریب نہیں رہے گا،آئی ایم ایف کے تعاون سے ہم تیزی سے اپنی منزل کی جانب  بڑھ رہے ہیں۔اب اس راستے میں ایسے بدنما داغ آئیں تو مٹا ہی دیئے جاتے ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں مجھے یہ سب اس بڑھیا کو دیکھ کر احساس ہوا۔یہ ہے آپا جنت بی بی،آپا جنت بی بی ہے کون؟کیا ہے؟میں بتاتا ہوں۔ 52سال پہلے وہ ایک آسودہ حال گھرانے کی مالکن تھی،تین بیٹے دو بیٹیاں۔شوہر کارخانے میں سپر وائزر تھا،بھوک نے ابھی حرص کی شکل اختیارنہ کی تھی کہ پیر چادر سے باہر نکلے ہی رہتے۔پھر آپا جنت بی بی کی زندگی میں ڈرامائی موڑ نہیں آیا۔اس کی زندگی ڈرامہ بن کر رہ گئی۔اس کا شوہر کام کے دوران حادثے میں مارا گیا،آپا جنت بی بی جوان تھی۔

بچے اکبر،یوسف اور کامران،راشدہ اور رابعہ بہت چھوٹے تھے شوہر چلا گیا تو ہر وقت گھر پر بند رہنے والی آپا جنت بی بی ایک مرد کے روپ میں گھر کی چار دیواری سے باہر آگئی۔وہ دن بھر مردوں کی طرح فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرتی اور رات کو ماں کی طرح بچوں کو اپنی آغوش میں لے کر سلا دیتی،اس طرح کہ اس جسم اور روح  کے زخم و تھکن کی ایک آنچ بھی بچوں تک نہ پہنچ پاتی۔ اتنی تیزی سے دن رات نہیں گزرے جتنی تیزی سے اس کے بال سفید ہوئے،اس کے کندھے جھکے۔آپا جنت نے اپنے گھر کی دیواریں مظبوط رکھیں اس کے اعصاب اور نظر کمزور ہوتی چلی گئی۔اب جنت بی بی کی زندگی میں ایک بار پھر سکھ نے دستک دی،جب پہلی بار اس کے  پندرہ سالہ اکبر نے پہلی تنخواہ کے ساتھ دروازہ کھولا،اگلے تین سال میں اس کے تینوں بیٹے کمانے لگے اب جنت بی بی کی کمر پھر سے سیدھی ہو گئی،آنکھوں میں بھی زندگی نظر آنے لگی۔اس نے جھٹ پٹ اپنے دونوں بیٹوں کو بیاہ دیا،یوں جیسے بس وہ اس دن کا انتظار کر رہی تھی۔


آپ سکھ کا سانس نہ لیں کہ چلو آپا کی تو ہیپی اینڈنگ ہو گئی،لمبی کہانی سے بچنے کے لئے بس اتنا جان لیں اکبر کسی بات سے روٹھ کر کراچی اور یوسف شادی کرکے راولپنڈی چلا گیا۔اب رہ گیا بے چارہ کامران،جسے غربت سے نفرت تھی بس اس نے امارت کے لئے یوں سوچنا شروع کر دیا جیسے کہ وہ کوئی سیاستدان ہو۔اس نے بڑی کمیٹیاں ڈالیں،لوگوں سے کاروبار کے نام پر پیسے اکٹھے کئے اور پھر ایک رات اپنے بیوی بچوں کو لے کر غائب ہو گیا۔ہاں آپ کو بتاتا چلوں کے اس دوران اپنی آپا جنت بی بی کی بڑی بیٹی راشدہ کا شوہر ہیپا ٹائٹس سے مر گیا۔افسوس کی کوئی بات نہیں کیونکہ زندہ رہ کر بھی کون سا کارنامہ سر انجام دیتا تھا،راشدہ اپنی تینوں بیٹیوں کو لے کر جنت کے پاس آگئی۔کامران کے غائب ہونے کے بعد لوگوں نے گھر پر ہلہ بول دیا،گالیاں،دھکے،کوسنے،طعنے اور نہ جانے کیا کیا،ایک قرض خوار نے آپا کی اچھی خاصی ٹھکائی کر دی۔پورے محلے نے یہ سین بہت انجوائے کیا۔پھر علاقے کے معززین نے فیصلہ کیا کہ آپا جنت بی بی کا گھر ضبظ کر لیا جائے۔یوں آپاجنت بی بی اپنی بیوہ بیٹی اور اس کی تین بیٹیوں کو لے کر سڑک پر آگئی۔

سچ ہے یا جھوٹ آپاجنت بی بی بتاتی ہیں کہ اس نے وہ رات مینار پاکستان کے نیچے گزاری،وہ کہتی ہے کہ وہ سوئی نہیں۔اس کے سامنے اپنی بیوہ جوان بیٹی اور اس کی تین بیٹیاں تھیں۔آپا جنت بی بی نے اپنا گھر تو چھوڑ دیا لیکن طعنے،رسوائیاں اور دھکے اس کے ساتھ ساتھ رہے۔اب وہ چوبرجی کے قریب ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے۔اس کی دوسری بیٹی کو اس کے شوہر نے اس لئے گھر سے نکال دیا کہ کامران نے اس کی کمیٹی کے پچاس ہزار ہڑپ کر لئے تھے۔آپ خود اندازہ لگا لیں اس کمرہ میں آپا جنت بی بی،اس کی بیوہ بیٹی اور اس کی تین بچیاں اور ایک شوہر کی نکالی رابعہ اس کی دو بچیاں رہ رہی ہیں۔رابعہ کے دو بیٹوں کو اس کے شوہر نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔

وہ خاصا سمجھدار ہے پچاس ہزار تو گئے اب وہ بیٹوں جیسی دولت بھی گنوا دے،بیٹیوں کا کیا ہے وہ تو روز ِاوّل سے ہی بوجھ ہیں۔میں نے کہا کہ اکبر کا کچھ پتا چلا،آپا جنت بی بی بولی اس کا فون آیا تھا،میں نے اپنی حالت بتائی تو کہنے لگا  اب میں آکر کیا کروں،کیامیں بھی ایک کمرے کے جہنم میں رہوں،یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔کہنے لگی ہمارے پاس دو کمبل تھے سارا سامان تو کامران کے جاتے ہی لوگوں نے لوٹ لیا تھا۔یہاں تک کے ان کے باتھ روم کا لوٹا تک ایک قرض خوا ہ اٹھا کر لے گیا تھا۔میں نے ڈرتے ڈرتے روکا تو علاقہ کے کونسلر نے مجھے بہت گالیاں دیں اب جنت بی بی کا چہرہ عجیب سا ہو گیا میں جانتا تھا کہ اسے وہ گالیاں یاد آرہی ہیں،کہنے لگی اس نے مجھے بہت گندی گندی گالیاں دیں،وہ رو رہی تھی۔میں نے کہا دو کمبلوں میں کیسے سوتے ہو؟۔کہنے لگی دو کمبل تھے اب ایک رہ گیا ہے کیونکہ تین روز قبل  دیوار پر رکھاایک کمبل کوئی ضرورت مند اٹھا کر لے گیا۔میں نے بے دلی سے کہا کہ اب میں کیا خدمت کروں؟۔جنت بی بی نے مجھے اور غصہ دلا دیا مجھے اس سے اور نفرت ہونے لگی،کہنے لگی کیا حکومت میری مدد نہیں کر سکتی؟،کیا تم کسی حکومتی نمائندے کو کہہ کر میرا اور میری بچیوں کا کچھ بندوبست نہیں کروا سکتے؟،کیا میرا کوئی حق نہیں اس دنیا پر؟۔


آپا جنت بی بی چلی گئی ہے لیکن میں غصے میں کھول رہاہوں اس کی اوقات دیکھو اور باتیں۔کہتی ہے کیا حکومت اس کی مدد نہیں کر سکتی؟،اس کا دنیا میں کوئی حق نہیں؟،یہ منہ اور مسور کی دال،۔
جا۔آپا جنت بی بی،جاکہیں جاکر مر جا،اپنے نحوست زدہ بچوں کے ساتھ،تو نے ہمت کیسے کی حکومت سے مدد مانگنے کی۔


آپا جنت بی بی یہ دنیا تمہاری تھی نہ ہو گی،یہ دنیا طاقتوروں کی،حکمرانوں،رہنماؤں،مذہبی پیشواؤں کی ہے۔ملک کی نظریاتی،جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کی ہے یا پھر ہاتھ میں چیری بلاسم کی ڈبی رکھنے والوں کی ہے۔تم اور کیڑوں جیسی کلبلاتی تمہاری اولاد زندہ ہے یہی بہت بڑی بات ہے۔کیا کریں ہمارے حکمران تمہاری مدد؟،انہیں کرنے کو اور بہت نیک کام ہیں،پھر وہ تو ہر دو تین ماہ بعد عمرہ بھی کر آتے ہیں۔بھلا انہیں کسی اور نیکی کی ضرورت رہتی ہے،سو آپا جنت بی بی اپنی اوقات سے بڑھ کر باتیں نہ کرو،شاید بھوک پیاس نے تمہیں آدابِ غلامی ہی بھلا دیئے ہیں۔تم جیسے لوگ نہ ہوں تو یہ ملک کب کا خوشحال ہو چکا ہوتا۔تمہارے لئے ان عظیم رہنماؤں کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑتا ہے۔نائن الیون سے لے کر آپریشن رد الفسا د تک سب کی ذمہ دارتم ہو۔

تمہاری وجہ سے ملک میں بجلی،گیس اور آٹے کا بحران آتا ہے،مارشل لاء آتا ہے،تم ذمہ دار ہو۔تمہاری بھلائی کے لئے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکہ سے کروڑوں ڈالر لئے جاتے ہیں اس ملک کی قیمتی زمینوں کو اونچے شملے والوں میں گفٹ کیا جاتا ہے۔تمہاری فلاح و بہبود کی خاطر بیرون ملک اربوں ڈالر کے اکاؤنٹس کھولے جاتے ہیں،یہ عالی شان محل،یہ لمبی لمبی کاریں سب تمہاری خاطر ہیں۔تمہاری خوشحالی کی خاطر ہیں اور تم ہو کہ نہ جانے کیا کیا بولے جا رہی ہو،بولے جاؤ کوئی فرق نہیں پڑتا،چاند پر تھوکو گی تو منہ پر پڑے گا۔ہمارے چاند ستاروں کو کچھ نا کہو،جاؤ اپنی بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزارو۔  

مزید :

رائے -کالم -