مہاجر پرندے اور ظفر اعوان …………
ظفر اعوان اُردو پنجابی کے شاعر ہیں ان کی پنجابی اور اُردو کی شاعری کی چار کتابیں پہلے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ ظفر اعوان کا تعلق سیالکوٹ شہر سے ہے۔ مہاجر پرندے کا نام بہت خوبصورت ہے۔ میرا خیا ل ہے کہ ظفر اعوان نے اس کا نام وطن سے دوری کے حوالہ سے پاکستان سے دور رہنے والے پاکستانیوں کو مہاجر پرندے قرار دیا ہے۔ پرندے تو ہمیشہ مہاجر ہی ہوتے ہیں۔ ظفر اعوان بھی ان مہاجر پرندوں میں شمار ہوتے ہیں، جن کو وطن کی یاد ستاتی ہے۔ مہاجر پرندے شاعری میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ زاہد محمود شمس نے دھنک مطبوعات کے زیر اہتمام خوبصورت انداز اور دلکش ٹائٹل کے ساتھ شائع کر کے کتاب کا حق ادا کر دیا ہے۔ مہاجر پرندے کے آغازمیں کتاب میں غزلوں کی خصوصیات اور ظفر اعوان کی شاعری کی خوبیوں کو محمد اقبال اختر، جمشید مسرور، جمیل احسن، سیّد سلمان گیلانی، اظہر فروغ اور نقاش علی بلوچ نے خوبصورت انداز میں شاعری اور کلام کا احاطہ کیا ہے۔ غزلوں کے عنوانات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس پائے کے شاعر ہیں، جیسے کہ ان کی شاعری کے عنوانات (آرزوئے سحر) اُردو مجموعہ کلام
میرے چار سو ہیں مسافر پرندے
چہرے کی تحریر کو پڑھنا سیکھا ہے
ظفر اعوان کی شاعری میں حقیقت پسندی کی چاشنی بھی نظر آتی ہے۔ظفر اعوان کے خیالات و نظریات میں انوکھا پن بھی ملتا ہے اور وہ ایسے خیالات کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں۔ان کی شخصیت اور شاعری سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ کے اتار چڑھاؤ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔مہاجر پرندے میں غزلیں بہت ہی سادہ، دلکش، مؤثر اور دلپذیر انداز میں ہیں وہ بیشتر شاعری کی قدیم روایت سے وابستہ ہیں۔ ان کا اندازہ اور لب و لہجہ انتہائی جدید ہے، شاعر کا مشاہدہ بہت عمیق اور ارتقا پسند ہے۔ کیونکہ اس کی اساس غم حیات ہیں جو انسانی حوصلے اور آرزوؤں کو پائندگی عطا کرتے ہیں۔ ان کے اظہار میں سلیقہ، زبان و بیان میں شائستگی، اظہار و ابلاغ میں خوبصورتی اور انداز و اسلوب میں فنی نزاکتوں کو نباہنے کا پورا پورا شعوری عمل دخل ہوتا ہے۔
جمشید مسرور اوسلو ناروے کہتے ہیں: ظفر کا خمیر پنجابی ثقافت اور زبان سے اٹھا ہے۔ ان کے پنجابی شاعری کے دو مجموعے ”زیویں سدھراں دی“ اور ”عُمراں دے کُھوہ“ منظر عام پر آ کر مقبول عام ہو چکے ہیں۔پنجابی کلام کی جولانیاں اپنی جگہ ہیں اور جب پنجابی صحیح مخرج سے ادا ہو تو بہت لطف دیتی ہے۔ اردو شاعر کی طرف بھی ظفر کا رجحان فطری ہے۔ اس ضمن میں یہ ظفر کی دوسری کاوش ہے۔ ان کی اردو شاعری کی پہلی کتاب ”آرزوئے سحر“ کے نام سے 2004ء کو منظر عام پر آئی تھی۔ ظفر اعوان کی شاعری پر مرکب عطر کا گماں ہوتا ہے۔ جس میں پانچ طرح کے عطر شامل ہوں۔ ظفر طلب کی سچائی پر یقین رکھتا ہے اور شعر کے ساتھ ساتھ فن ِ شاعری کے رموز بھی جانتا ہے اور مزید سیکھنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور اس کی یہی خوبی اسے اپنے ہم عصروں میں نمایاں کرتی ہے۔
ڈھونڈنے کی فقط ضرورت ہے
ہے بہت کچھ یہاں دفینوں میں
زمین ہو گئی تنگ تیری خدایا
ہواؤں میں سوئے مہاجر پرندے
اظہر فروغ کہتے ہیں: مہاجر ہونا ہی کم دکھی نہیں اور اس پر پرندوں کی ہجرت، معنی افرینی کا نیا دروازہ کھولتی ہے اور اگر اس کو ظفر اعوان کے لب و لہجے کے تناظر میں دیکھئے تو ہجرت کی آسائشوں میں چُھپی اذیت بڑی شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ ظفر اعوان کی چند غزلیں نظروں سے گزریں تو سب سے پہلے خوشگوار احساس یہ ہوا کہ ڈنمارک جیسے ملک میں بیٹھ کر جہاں وقت کا مطلب کرنسی ہے۔ ادھر رہتے ہوئے تخلیقی امور میں وقت گزارنا، مادیت کو احساس میں ڈھالنا کتنا مشکل ہو گا۔