کاوہ موسوی
جوتھوڑی بہت معیشت ہم جانتے ہیں اس کی بنیادپرکہا جا سکتا ہے کہ برطانوی فرم براڈ شیٹ کے مالک کاوہ موسوی جس پاکستانی دولت کی لوٹ مار کو ڈھونڈ نکالنے کے دعوے کر رہے ہیں دولت کے وہ انبار کسی صورت پاکستان، بحیثیت ایک ریاست کے پید اکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس بات کو اس طرح سے اگر کہہ لیں تو زیادہ آسان ہوگی جیسے ہم میں سے ہر ایک میں ایک خاص مقدار کا وزن اٹھانے کی اہلیت (Capacity)ہے، اسی طرح ریاستوں میں بھی ایک حد تک دولت پیدا کرنے کی اہلیت ہوتی ہے۔ پاکستانی معیشت کا عالم تو یہ ہے کہ اگر اس میں سالانہ ایک سے دو ارب ڈالر انجیکٹ کردیئے جائیں تو صنعت و حرفت سے لے کر زراعت تک سب کچھ چل پڑتا ہے۔یعنی پاکستان کی معیشت وہ موٹر سائیکل ہے جس میں ایک لٹر پٹرول بھی بہت ہوتا ہے۔
خالی ایک محبت، وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
جس طرح اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے اور نیت کا دارومدارصلاحیت پر ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی ریاست کی خوش حالی کا دارومدار اگرچہ معیشت پر ہوتا ہے لیکن معیشت کا انحصار اس ریاست کی پیداواری صلاحیت سے مشروط ہوتا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ ریکوڈک کے پہاڑوں میں سونا بھرا ہوا ہے، ایران کے ساتھ سرحدی پٹی میں تیل کے ذخائر ہو سکتے ہیں لیکن اگر ہم سونے اور تیل کے ان ذخائر کو کھود نکالنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تو ریاست پاکستان کیونکر ان ذخائر کی بنیاد پر عالمی منڈی سے تیل خرید کر عوام کو سستا مہیا کر سکتی ہے۔ چنانچہ ہماری ناقص رائے میں مختلف لوگوں کے سر جواربوں ڈالر کی لوٹ مار تھوپی جاتی ہے وہ پاکستان کا نہیں بلکہ پاکستان سے باہر کا پیسہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ افغان جنگ میں جس طرح امریکہ، یورپ اور مڈل ایسٹ نے پاکستان پر ڈالروں کی برسات کئے رکھی تھی ان پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع صرف ان پاکستانیوں کو مل سکتا تھا جو بااثر عہدوں پر براجمان تھے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں عوام امیر اور حکومت غریب ہے تو دراصل یہ و ہی عوام ہیں جن کو عرف عام میں اشرافیہ کہاجاتا ہے اور جن کا پالیسی ساز اداروں میں براہ راست یا بالواسطہ عمل دخل ہے۔ چنانچہ وہ ایڈمرل منصورالحق کی آگسٹا آبدوز میں کمیشن یا کک بیک کا معاملہ ہو، آصف زرداری کا ریاست پاکستان سے ہر سودے کا ٹین پرسنٹ ہو یا شریف فیملی کی منی لانڈرنگ کے قصے ہوں، اس تمام دولت کا ریاست پاکستان سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ دولت یہاں پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ دور دیسوں سے کمیشنوں، کک بیکوں یا پرسنٹیجوں کی صورت میں آئی تھی جیسے کہ لگانے والے یہ الزام لگاتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے ایون فیلڈ میں خریدے گئے فلیٹس دراصل موٹر وے پراجیکٹ کے کمیشن سے خریدے گئے تھے اور اسی لئے وہ ان فلیٹوں کی خریداری کا ثبوت پیش نہیں کر پا رہے ہیں۔
جہاں تک کاوہ موسوی کا تعلق ہے تو انہوں نے جس میڈیا کمپین کا آغاز کیاہے اس کا مقصد ان چھے سات ارب روپوں کا حصول یقینی بنانا ہے جو ابھی ان کی تحویل میں نہیں آسکے ہیں اور پاکستانی ہائی کمیشن سے لندن کی عدالتوں کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے ہیں۔ کاوہ موسوی سن 2000سے اپنی کہانی اسی لئے سنا رہے ہیں تاکہ لندن کی عدالتوں کو ثبوت پیش کرنے کے بعد اب دنیا کو بھی بتاسکیں کہ ان کے پاس اس قدر خطیر رقم کیونکر آنے والی ہے تاکہ کل کلاں کو کوئی ان سے سوال نہ پوچھ سکے۔ ادھر ہمارا میڈیا ہے کہ نواز شریف دشمنی میں کا وہ موسوی کی جانب سے کی جانے والی ہوائی فائرنگ میں سے صرف ایک گولی کا خول اٹھا کر شور مچا رہا ہے کہ اس گولی پر شریف فیملی کا نام لکھا ہوا ہے۔
نوے کی دہائی میں جس طرح پیپلز پارٹی کے دشمنوں نے نون لیگ کو استعمال کرکے آصف علی زرداری کو کرپشن کی سمبل بنا کر پیش کیا تھا اور 1997کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ووٹروں نے اسی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی بجائے گھروں میں بیٹھنے کو ترجیح دی تھی آج بالکل اسی طرز پر نون لیگ کے دشمنوں نے پی ٹی آئی کو استعمال کرکے نواز شریف کو کرپشن کا سمبل بنا کرپیش کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح ملک میں سیاسی جماعتوں کو مضبوط نہ ہونے دیا جائے اور ساری کی ساری پنیری انہی کی نرسری سے نکلتی رہے۔ اسی لئے ایک وقت تک عمران خان میثاق جمہوریت کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے کہ میثاق جمہوریت دراصل کرپٹ سیاسی قیادت کا گٹھ جوڑ ہے، حالانکہ اس کا مقصد ملک میں سیاسی استحکام یقینی بنانا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ آج ایک مرتبہ پھر وہی کچھ دہرایا جا رہا ہے اور ہمارے میڈیا کا ایک بڑا حصہ، خاص طور پر نوجوان صحافیوں کی بڑی تعداد، اس پراپیگنڈے کی تان پر رقص کر رہی ہے، ایسے میں موسوی کی جانب سے پاکستان کی سیاسی قیادت پر میبنہ الزامات سونے پر سہاگے کا کام کر رہے ہیں اور ہمارے عاقبت نااندیش دوست صبح و شام اس بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ نوا ز شریف کیوں لندن کی عدالت میں موسوی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ کوئی یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ موسوی نے جو دیگر اشارے کئے ہیں ان کا کیا بنے گا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ہمارے میڈیا کو بھولا ہوا ہے کہ جنرل مشرف کے اکاؤنٹ سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی خبر آئی تھی جسے انہوں نے سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ کا تحفہ قرار دے دیا تھا۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا اور یوسف رضا گیلانی کو ترکی صدر کی بیگم کا دیئے جانے والا ہار توشہ خانہ کیس کی صورت میں ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔