کیا پراسیکیوشن کا کام عدالتوں کو چکمہ دینا ہے؟ ،منشیات سمگلنگ کیس میں استغاثہ کے سقم پر سپریم کورٹ برہم
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) سپریم کورٹ میں منشیات کے ملزم کی درخواست ضمانت پر عدالت برہم ہو گئی اور ریمارکس دیے کہ کیا پراسیکیوشن کا کام عدالتوں کو چکمہ دینا ہے؟۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منشیات سمگلنگ میں گرفتار ملزم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی ، عدالت نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوشن کی خامیوں کی وجہ سے بے گناہوں کو سزا اور اصل ملزمان بری ہوتے ہیں، پراسیکیوشن کی خامیاں کوئی نہیں دیکھتا سب کو شکایت عدالت سے ہوتی ہے، ایف آئی آر میں عمومی ناکہ بندی کے دوران ملزم سےمنشیات برآمدی کا دعویٰ کیا گیا، پولیس ایسی ناکہ بندی کے دوران ملزمان کی ویڈیو کیوں نہیں بناتی؟ ، کل کوئی ملزم انکار کردے کہ میں جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا تو کیا ہوگا؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہر پولیس والے کے پاس موبائل فون موجود ہوتا ہے، کیاوزارت داخلہ کو یہ اطلاع نہیں ملی کہ ہر بندے کے پاس موبائل ہے؟ ، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی ایسی ناکہ بندی کے دوران ملزمان کی تصاویر کیوں نہیں لی جاتیں، کیا پراسیکیوشن ملزمان سے مل کر مقدمے میں خامیاں چھوڑتا ہے؟ ، آج کل دو سال کے بچے نے بھی موبائل فون استعمال کرنا شروع کردیا ہے، پولیس نے بغیر مخبری کے رینڈم ناکہ بندی کے دوران چرس پکڑی، پولیس والا اتنا تجربہ کار تھا تو موبائل فون استعمال کرنا نہیں آتا تھا؟ ملزم کیخلاف چلان پیش کردیا لیکن گاڑی کے مالک کی تفصیلات نہیں دیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ایکسائز کو گاڑی کے مالک کی تفصیلات فراہم کرنے کا لکھا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ پاکستان میں ہے یا انگلستان میں جو ابھی تک تفصیلات نہیں ملی؟تفصیلات فراہم نہ کرنے پر محکمہ ایکسائز کیخلاف مقدمہ کیا؟، حیرت ہے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ پولیس کو بھی جواب نہیں دے رہا۔
سپریم کورٹ نے دو لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ملزم کی ضمانت منظور کر لی۔