اور بھی کھل جائیں گے، دو چار ملاقاتوں میں!

ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے، ہزاروں فلسطینیوں کی شہادتوں، زخمیوں اور غزہ کی تباہی کے بعد جنگ بندی کا سمجھوتہ ہو گیا۔ اگرچہ یہ چالیس روز کے لئے ہے تاہم معاہدے کی جو شرائط سامنے آئیں، ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مستقل کی طرف بڑھ جائے گا، کھنڈر بنے غزہ کے ملبے پر بھی لوگوں نے باہر نکل کرخوشی کے مظاہرے کئے۔ الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی دینے والے اس مظاہرے میں آنکھوں سے آنسو بہتے بھی دکھائی دے رہے تھے، قریباً سوا سال کے دوران اسرائیل کی طرف سے زیادہ تر فضائی حملے کئے گئے اور ڈرٹی بم تک برسائے گئے، غزہ کے عوام پر یہ عرصہ قیامت خیز تھا، اس دوران مساجد، سکول، کالج اور ہسپتال تک نہ چھوڑے گئے، شہید ہونے والے تو اللہ کے حضور حاضر ہوئے لیکن زخمی ہونے والوں میں معذور ہونے والوں کی تعداد بھی کم نہیں، اسرائیلی حملوں کے دوران خواتین اور بچوں کی بھاری تر تعداد شہید ہوئی، خوراک اور ادویات کی کمی نے انسانی المیہ بھی پیدا کیا، اب معاہدہ کی اطلاع کے بعد سرحد پار کھڑے امدادی سامان کی ترسیل بھی شروع ہو گئی ہے۔ دعا ہے کہ یہ معاہدہ مستقل شکل اختیار کرلے۔
یہ ذکر اس لئے کیا کہ اقوام متحدہ کی مداخلت، عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں اور دنیا بھر میں مظاہروں کے باوجود اسرائیل نے کسی کی بات پر کان نہ دھرے اور مسلسل آگ برساتا چلا گیا، حتیٰ کہ ان حملوں کا دائرہ لبنان اور شام تک بڑھانے کے علاوہ ایران کے اندر جا کر حماس اور خود ایران کی اہم شخصیات کو بھی نشانہ بنایا، یوں دنیا بھر کی ہر بات رد کرنے کے بعد بھی بات مذاکرات تک آئی اور بات چیت ہی کے نتیجے میں یہ معاہدہ بھی ہوا یوں کہا جا سکتا اور کہا گیا کہ مذاکرات کے ذریعے بڑے سے بڑے مسائل حل ہو جاتے ہیں، اب دعا ہے کہ یہ دور اور آگے بڑھے اور مسئلہ فلسطین مکمل طورپر بھی حل ہو۔
مسئلہ فلسطین بھی اسی طرح دیرینہ ہے، جیسے ہمارے خطے میں تنازعہ کشمیر ہے بھارت کی انتہا پسند حکومت بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پرواہ کئے بغیر 77سال سے قبضہ جمائے بیٹھی اور کشمیر (مقبوضہ) میں مسلسل مظالم ڈھا رہی ہے، اب تو کشمیریوں کی تیسری نسل بھی ستم کا شکار ہے کہ بھارت نے 9لاکھ سے زیادہ فوج کشمیر میں تعینات کر رکھی ہے جو برسرعام ظلم کی انتہا کئے ہوئے ہے اس کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ حریت کم نہیں ہوا بلکہ اور بڑھ چکا، بھارت کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں جو کیاجا رہا ہے اس سے دنیا کی آنکھ نہیں کھلتی اور ظلم نظرنہیں آتا، لیکن ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، انشاء اللہ یہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔
اب یہ بھی اتفاق ہے کہ دنیابھر کے میڈیا میں اسرائیل اور حماس کا معاہدہ ہوا اور اس کی خبر سامنے آئی تو پاکستان میں بھی ڈیڈلاک ٹوٹنے کی آس پیدا ہوئی ہے۔ آج جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو اسلام آباد میں حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف کی کمیٹیوں کے درمیان اجلاس ہوا اور قوم کی نگاہیں اسی طرف تھیں،ہر کوئی اچھے نتائج کی توقع رکھتا ہے اگرچہ فریقین کے ”انقلابی“ دستوں کی طرف سے پوری کوشش ہے کہ مذاکرات ناکام ہوں اس سلسلے میں تحریک انصاف جو مبینہ متاثرہ فریق ہے، زیادہ میدان میں ہے اور پہلے تو کہا جاتا تھا لیکن اب محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف خصوصاً بانی جماعت عمران خان کو یہ یقین ہے کہ یہ مذاکرات ان کی حکمت عملی اور جماعتی دباؤ کے نتیجے میں شروع ہوئے ہیں اور وہ نہ صرف اپنی طرف سے اس دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ مزید بڑھانے کے خواہشمند ہیں، حالانکہ سابقہ ”کالوں“ کے بارے میں وہ خود اور ان کی جماعت کے اہم حضرات جانتے ہیں کہ انجام کیا ہوا تھا۔ خان صاحب کی طرف سے تو شاید یہ مذاکرات ایک عذر ہیں کہ انہوں نے اپنی جماعت کو صرف دو مطالبات کے لئے کہا ہے جو تحریری طور پر دے دیئے گئے ان ہر دو مطالبات پر غور کیا جائے تو پھر یہ مذاکرات کا آخری دور ہوگا جیساکہ سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص کی طرف سے واضح کیا گیا ہے، ان کا الٹی میٹم ہے کہ اگر حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ تسلیم کرکے اعلان کر دیا تو درست ورنہ یہ اجلاس آخری ہوگا، یوں بابے سے زیادہ بابے کی گولیاں زیادہ گرم ہین، دوسری طرف خود کپتان نے 8فروری (یوم انتخاب) کو یوم سیاہ منانے کی ہدایت اور اعلان کر دیا ہے اور یہ بھی مذاکرات کے تیسرے دور سے ایک روز پہلے کیا گیا ہے یوں حکومتی اتحاد کی ٹیم کو اعتراض کے لئے ایک اور نکتہ پیش کر دیا گیا ہے۔
قارئین! ذرا غور فرمائیں اور خود انصاف کریں کہ اس وقت جس قدر ملک کو اندرونی استحکام کی ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی کہ دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی سلامتی کی فورسز نے اب زیادہ توجہ دی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انٹیلی جنس نیٹ ورک کو اور اپ ڈیٹ کرلیا گیا ہے۔ دوسری طرف خود چیف آف آرمی سٹاف نے دہشت گردی کے حوالے سے بڑا قدم اٹھایا اور خود پشاور کا دورہ کیا تو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی ملے اور ان سے براہ راست بات کی، بریفنگ بھی ہوئی اور سیاسی رہنماؤں کودہشت گردی کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا۔ان حضرات نے بھی مایوس نہیں کیا، چنانچہ دہشت گردی پر قومی اتفاق رائے بھی ہو گیا، اب ذرا اس حوالے سے غور فرمائیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ بات کہاں تک اور کیسے ہو رہی ہے کہ سپہ سالار سے ملنے والوں میں تحریک انصاف کے چیئرمین (رجسٹرڈ الیکشن کمیشن) بیرسٹر گوہر خان بھی موجود تھے۔ نہ تو سرکاری طور پر ان کی موجودگی کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی تحریک انصاف نے بتایا البتہ گورنر کے پی کے جن کا تعلق پی پی سے ہے ایک انٹرویو میں یہ بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ اگر وہ ملے ہیں تو ان کو اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ اس ملاقات میں،میں بھی موجود تھا۔ فیصل کریم کنڈی مسلسل ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ امن و امان کے حوالے سے صوبائی حکومت کے اقدامات نہ ہونے کے ہیں، خصوصاً کرم کے مسئلہ پر تو گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان مسلسل محاذ آرائی جاری ہے۔
قارئین! یہ تحریر مکمل نہیں ہوئی کہ اسلام آباد سے خبریں آ گئیں، سپیکر ایاز صادق کے مطابق مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں، اپوزیشن نے اپنے تحریری مطالبات پیش کر دیئے اور مطالبہ کیا ہے کہ کمیٹی کی بانی جماعت عمران خان کے ساتھ ایک اور ملاقات کرائی جائے تاکہ ان کو اجلاس کے حوالے سے بریف کیا جاسکے۔ ان کے علاوہ سینیٹر عرفان صدیقی نے اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے بتایا کہ اپوزیشن نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کئے تھے، حکومتی اتحاد کی طرف سے مہلت مانگی گئی اور ایک ہفتے میں جواب دیا جائے گا تاکہ اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی جا سکے۔ یوں یہ اجلاس بخیر و خوبی مکمل ہوا اور ایک اور اجلاس پھر ہوگا، توقع کی جانی چاہیے کہ مثبت ہیں تو نتائج بھی مثبت ہوں گے۔
قارئین! اس مرحلے پر اور بہت دوست جو باخبر بھی ہیں اور مستقبل میں بھی وہ تبصرے اور تجزیئے کریں گے، میں محتاط ہوں کہ مذاکرات کی کامیابی کا خواہاں ہوں، تاہم ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ اسی دوران بیرسٹر گوہر نے میڈیا کے سامنے چیف آف آرمی سٹاف سے پشاور میں ملاقات اور بات چیت کو تسلیم کرلیا اور بتایا ہے کہ انہوں نے علی امین گنڈا پور کے ساتھ آرمی چیف سے ملاقات کی تھی اور ہمارے درمیان ملکی استحکام کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ ہم نے اپنے مطالبات بھی ان کے سامنے رکھے اور ان کا جواب مثبت تھا وہ بہت خوش بھی تھے۔یوں یہ کنفیوژن بھی دور ہو گیا، اب جن حضرات کو شبہ تھا اور دور کی کوڑی لا رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی مشکوک ہے ان کو واضح ہونا چاہیے کہ مذاکرات کے حوالے سے بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پرہیں کہ منطقی طور پر حکومت نے اعتماد میں لے کر ہی یہ سلسلہ شروع کیا ہو گا۔ قارئین! اب آپ بھی قیافہ آرائیاں شروع کر دیں کہ فوڈ فار تھاٹ بہت مل گیا۔