سیاسی جماعتوں کی کارکردگی

سیاسی جماعتوں کی کارکردگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں چاہے ان کا تعلق دائیںبازوسے ہو یا وہ بائیں بازو کے نظریات کی علمبردار ہوں ان کی فعالیت کا نکتہ عروج صرف انتخابات کے موقع پریاحکومت وقت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کے موقع پر دیکھنے میں نظر آتا ہے، لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد برسر اقتدار جماعت حکومتی امور کی انجام دہی کے موقع پراپنی پارٹی کے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے، جبکہ کہ حزب اختلاف صرف بیان بازی کی سیاست کو اپنا محور بنا لیتی ہے ،ہر سیاسی جماعت سماجی ومعاشرتی مسائل کے بارے تحقیق اور ان کے مسائل کے جامع حل کی کوشش کے لئے تجاویز دینے کو صرف وقت کا ضیاع سمجھتی ہے،ملک میں سماج کو درپیش مختلف مسائل جیسے فرقہ واریت، دہشت گردی کے خلاف جنگ ،لسانیت اور صوبائیت کے عفریت کے بارے رائے عامہ کو بیدار کرنا اور نسلی منافرت اور دوران انتخابات ذات پات کے نسلی تعصب کا رائے دہندگان پہ اثران کے بارے کسی سیاسی جماعت نے بیانات کے علاوہ کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا، جس میں ان مسائل سے نمٹنے کے لئے عوام کی سیاسی تربیت اور رہنمائی کی جا سکے۔
” سابق صدر ضیاءالحق“ کے لائے گئے امریکی ساختہ اسلام کے بعد سے پاکستان بدترین فرقہ واریت کا شکار چلا آ رہا ہے اور اب یہ فسادات قصبوں اور دیہاتوں میں نہیں بلکہ بڑے شہروں جیسے کراچی ،لاہور، گلگت وغیرہ میں ہوتے ہیں جہاں تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت ہے، نہایت افسوسناک امر ہے کہ کسی بھی فرقہ وارانہ فساد کے بعد اس کے اسباب و عوامل ،معاشرے پراس کے اثرات اور مضمرات کے بارے کسی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت نے نہ تو کبھی کوئی ورکنگ پیپر شائع کیا اور نہ کبھی کوئی ایسی کمیٹی تشکیل دی جو کسی بھی لسانی فساد ،نسلی دیں گے ، فرقہ وارانہ فساد کے بعدمستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اپنی سفارشات یا تجاویز پیش کرے، لیکن ایسے ہر واقعے کے بعد حکومتی جماعت کی جانب سے مذمت کا بیان اور حزب اختلاف کی جانب سے اظہار افسوس اور حکومتی کارکردگی پر تنقید کے ضمن میںسینکڑوں بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔
ملک میں زرعی پیداوار کے اضافے کسانو ں کی رہنمائی، زرعی اصلاحات پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات اور ایک زرعی ملک میں اجناس کی گرانی کے بارے ابھی تک کسی بڑی جماعت نے کوئی ورکنگ پیپر یا تحقیقی مقالہ شائع نہیں کیا۔
ایسے متعدد مسائل جواب اس ملک کے لئے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں کے تذکرے کے لئے اس کالم میں جگہ نہیں،لیکن جوکام پہلے کبھی نہیں اس کے بارے یہ سوئے ظن رکھنا کہ وہ آئندہ نہیں ہو گا میرا خیال ہے مایوسی کی بات ہے ،سیاسی جماعت اپنے کارکنوں ، ووٹروں اورچاہنے والوں کے لئے ایک مو¿ثر ترین پلیٹ فارم ہوتی ہے ،ہمارے سماج پر بھی سیاسی جماعتوں کے دیرپا اثرات ہیںیہ بات تو اب لوگ تعارف کے طور پر بھی کہتے ہیںکہ فلاں صاحب سکہ بند جیالے ہیں یا دوسرے صاحب خاندانی مسلم لیگی ہیں یا یہ کہ موصوف کا تعلق جماعت اسلامی سے اتنا ہی قدیم ہے جتنی یہ جماعت خود ہے،اس کے باوجود ملک کے سماجی مسائل کے بارے عوام کو آگاہ نہ کرنا اور ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ان کی سیاسی عدم تربیت اور تحقیق کے کام کو صرف این جی اوز پر چھوڑ دینا سیاسی جماعتوں کا ایک ایسافعل ہے جسے سیاسی مورخ کبھی معاف نہیں کرے گا۔
پاکستان کی تما م سیاسی جماعتوں کو ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پیش نظر اپنی جماعتوں میںایسا کیڈر تیارکرنا پڑے گا جو کسی بھی آفت پربیان بازی کے بجائے اس سے نمٹنے کے طریقے، ان کے تدارک کے لئے موثر اقدامات اور اس کے ذمہ داروں کوثبوت کے ساتھ کیفر کردار تک پہنچانے میں حکومت اور معاشرے کی بھرپور مدد کرے تاکہ ان کی سیاسی جماعت صرف اقتدارکی میوزیکل چیئرکا حصہ نہ ہو، بلکہ وہ عوام کی اس سیاسی اور سماجی تربیت کا بھی بیڑہ اٹھائے جو بطورسیاسی جماعت اس کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے۔
تقسیم ہند سے قبل ہی انڈین نیشنل کانگرس نے کچھ کمیٹیاں قائم کیںجنہوں نے تین اہم شعبوں کے بارے جامع سفارشات کانگرس کی ہائی کمان کو ارسال کیں جن میں زرعی اصلاحات، ملک میں انتخابات کا بلارکاوٹ و تاخیرانعقاد اور بھارت کی صنعتی پالیسی شامل تھے، آزادی کے بعد جب کانگرس نے عنان اقتدار سنبھالی تو روز اول سے ان سفارشات پہ عمل شروع کیا، جس کے نتیجے میں بھارت میں انتہائی کامیابی سے زرعی اصلاحات کا نفاذ ہوا، آج تک پارلیمانی انتخابات تعطل کا شکار نہیں ہوئے،پہلے چند سال میں ہی ملک کا آئین بنا لیا گیا، جس کو کبھی توڑا نہیں جا سکا اور نجی شعبے کومضبوط کرنے کی جو صنعتی پالیسی تجویز کی گئی تھی اس کے ثمرات اب بخوبی محسوس کئے جا سکتے ہیں، اگرہم لوگ مغربی دنیا کی تقلید سے گریزاں ہیں تو میرے خیال میں ہمسایہ ملک کی سیاسی جماعت سے سبق سیکھنے میںکوئی عارنہیںجو ہمارے جیسا اقتصادی طورپہ ترقی پذیرملک تھا، مگر سیاسی طورپہ ایک ترقی یافتہ ریاست ہے۔ ٭
مکرمی! میری تعلیم بی ٹیک الیکٹرونکس (B-Tech Electronics) ہے۔ مَیں پانچ سال سے بے روزگار ہوں۔ مَیں نے پبلک سیکٹر آرگنائزیشن میں بطور جونیئر چارج مین اپلائی کیا تھا اور مجھے پوری امید تھی کہ مجھے ملازمت مل جائے گی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، لیکن محکمہ ڈاک نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مجھے کال لیٹر دس جولائی بروز بدھ موصول ہوا، جبکہ پبلک سیکٹر آرگنائزیشن نے یہ لیٹر بارہ جون کو جاری کیا۔ یہ کہاں پڑا رہا؟ محکمہ ڈاک اس کی وضاحت کرے۔ مجھے ذہنی ٹارچر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت بار ایسا ہوا ہے۔ یہ ایک بے روزگار، تعلیم یافتہ نوجوان کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے ۔مجھے یہ لیٹر دس جولائی کو ملا جبکہ میرا ٹیسٹ پانچ جولائی کو تھا۔ اگر آج میرے ساتھ ایسا ہوا ہے ،کل کو ایسا میرے جیسے بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ میری خادم اعلیٰ سے درخواست ہے کہ خدارا !ہم جیسوں پر ترس کھایا جائے اور سخت نوٹس لیا جائے۔
(محمد ناصر راٹھور ولد مشتاق احمد نارنگ منڈی ضلع شیخوپورہ ۔رابطہ نمبر: 0332-4154391
 محلہ مسلم پارک رفیق آباد نارنگ منڈی نزد گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول تحصیل مرید کے،
ضلع شیخوپورہ۔)

مزید :

کالم -