پاک بھارت تعلقات کا ناگزیر پہلو
مثالی حل تو یہی ہے کہ کشمیر کو بزور طاقت حاصل کیا جائے۔قائد اعظم ؒ نے بھی بھارت کا ناجائز قبضہ ختم کرانے کے لئے فوج کشی کا حکم دیا تھا، پاکستان کے انگریز آرمی چیف جنرل گریسی نے، مگر ہاتھ کھڑے کر دئیے ،یہ وزیرستان کے قبائل تھے کہ جنہوں نے بانی پاکستان کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے کشمیر پر ہلہ بول دیا۔ حملہ اتنا زور دار تھا کہ بھارت کو بڑی شکست سے بچنے کے لئے بھاگم بھاگ اقوام متحدہ جانا پڑا۔ عالمی مداخلت پر لڑائی تو رک گئی ،اس دوران قبائلی مجاہدین ایک حصے کو بھارتی تسلط سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ آزاد کشمیر کہ جس کی تکمیل آج بھی پوری قوم پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔
زمینی حقائق ،مگر کیا ہیں؟ بھارت سے جنگ لڑ کر کشمیر حاصل کیا جاسکتا ہے؟ فی الوقت تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ فی الوقت ہی کیوں 1965ء، 1971 کی جنگوں اور پھر 1999 ء میں کارگل کے واقعہ کے بعد تو حالات کچھ اور ہی رخ پر جاتے نظر آئے، کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ عوام کو جذباتی نعروں سے بہکانے اور خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے کے سراب سے نکال کر درپیش حقیقی مسائل کی جانب توجہ دی جائے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے کہ جب بھارت سے تعلقات کے معاملے پر سیاسی اور غیر سیاسی خالی خولی نعرے بازیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ پاکستان اور اس کے عوام کو آج جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ کمزور معاشی صورت حال کا طوق ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ وزنی ہوتا جارہا ہے۔ جان لیجئے !تجارت ہی وہ راستہ ہے کہ جس کے ذریعے آپ اپنی مالی مشکلات کو حل کرنے کی جانب قدرے تیزی سے بڑھ سکتے ہیں ،بھارت پوری دنیا کے لئے عظیم تجارتی منڈی ہے، ہم اس کے پڑوسی ہو کر فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکتے؟ ایک آدھ مذہبی جماعت کو چھوڑ کر پاکستان کی شاید ہی کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہو جو بھارت سے تجارت کی حامی نہ ہو۔ یہ کہنا حماقت ہے کہ سیاستدان محض اپنے مفادات کے لئے ایسا چاہتے ہیں ،سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اپنی معاشی حالت کو جلد بہتر بنانے کے لئے اس کے سوا کوئی اور راستہ ہی نہیں حتیٰ کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے بھی بھارت سے تجارت ضروری ہے۔ اسکا بہت زیادہ فائدہ خود بھارت کو بھی ہو گا۔
روس کے شہر اوفا میں پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے بعد حکومت مخالف حلقوں نے چیخ پکار شروع کر رکھی ہے۔ بعض معاملات ایسے ہیں جن پر اعتراض کیا جا سکتا ہے ،لیکن دیکھنا ہو گا کہ حکومت کے پاس گنجائش ہی کس قدر تھی ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ بھارت نے ممبئی حملے میں ملوث افراد کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا کر پاکستان کے لئے زبردست مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔ وہ تو بھلا ہو چین کا کہ جس نے معاملے کو ویٹو کر کے پاکستان کے لئے خطرات ٹال دئیے۔ مصدقہ ذرائع کی ،مگر یہ اطلاع بھی ہے کہ چین نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ اس نوع کے معاملات پر بار بار ویٹو کرنا شاید اس کے لئے بھی ممکن نہ رہے۔ بہتر ہو گا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کوئی مناسب حل تلاش کرے۔چین کا صائب مشورہ ایک انتباہ بھی ہے، جی ہاں دوستانہ انتباہ، اگر کسی معاملے پر ویٹو پاورز سمیت تمام عالمی برادری بھارت کی ہمنوا ہو جائے تو اکیلا چین کب تک پاکستان کے لئے دفاعی کردار ادا کرتا رہے گا۔ زیادہ دیر تک ایسا ممکن بھی نہیں کیوں کہ سرحدی تنازع کے باوجود چین اور بھارت کی باہمی تجارت کا حجم 80ارب ڈالر تک ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں مزید اضافے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ بات ہر گز فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ کارگل لڑائی کے باعث پیدا ہونے والے سنگین بحران کے دوران چینی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ’’ لڑائی ختم کرنے کی ذمہ داری اسی فریق پر عائد ہوتی ہے جو اسے شروع کرنے کا ذمہ دار ہے‘‘۔ چین کے اس رویہ سے یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاک بھارت جنگ نہیں چاہتا ،ہو سکتا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور بعض دیگر سازشی ممالک دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو ابھار کر کشیدگی برقرار رکھنے کے خواہش مند ہوں ،لیکن یہاں بھی یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ گہرے تجارتی اور فوجی مفادات وابستہ ہیں۔ افغانستان میں پھنس کر امریکہ نے جو غلطی کی اس نے سپرپاور کو وقتی طور پر مجبور کر دیا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کو عارضی طور پر ہی سہی، لیکن بہتر بنانے پر زور دے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگی جنون اور زعم میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اوبامہ کی جانب سے یہی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ پاکستانی قیادت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں۔ اس سے پہلے یہ تاثر موجود تھا کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اس بار ممبئی حملوں جیسا کوئی واقعہ رونما ہوا تو بھرپور جنگ چھیڑ دی جائے ، سو امریکہ نے معاملہ بھانپتے ہوئے مداخلت کرتے ہوئے اپنی پالیسی بھارتی قیادت پر واضح کردی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بھارت، پاکستان کا دوست بن جائے گا یا اپنی سازشیں ترک کر دے گا۔ اصل مسئلہ تو ہمیں درپیش ہے کہ جب ایک بڑے ہمسایہ کے ساتھ جنگ ممکن نہیں تو پھر اپنے اپنے عوام کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لئے راستے کیوں نہ تلاش کئے جائیں۔ پاکستان کے حوالے سے نریندر مودی پر امریکی دباؤ اپنی جگہ، لیکن یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ بھارتی وزیراعظم اپنے ملک کے کارپوریٹ سیکٹر کی نمائندگی بھی کرتے ہیں، یہ طبقہ کسی صورت نہیں چاہے گا کہ بھارت ایٹمی صلاحیت کے حامل اپنے ہمسایہ کے ساتھ کسی بڑی لڑائی میں ملوث ہو کر اقتصادی ترقی خطرے میں ڈالے۔پاکستان کے بڑے سرمایہ کار بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں بھارت کے ساتھ تجارت کا موقع ملے۔ ان سرمایہ کاروں کی غالب اکثریت کو اپنے تجربے کی بنیاد پر یقین ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان اور پاکستانی عوام کی حالت کو جلد بہتر بنانے میں بہت مدد ملے گی۔ اس وقت ہمارے لئے یہ سنہری موقع موجود ہے کہ عالمی برادری خواہ اپنے مفادات کے تحت ہی سہی بھارت پر زور ڈال رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روس کے شہر اوفا میں ہونے والی پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات سے قبل امریکہ میں متعین سفیر ملیحہ لودھی واشنگٹن کا پیغام لیکر آئی تھیں۔ وزیراعظم پاکستان ،بلکہ دیگر سٹیک ہولڈروں تک بھی یہ بات پہنچا دی گئی تھی کہ امریکہ اس حوالے سے کیا چاہتا ہے۔
بالکل درست کہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر ہی کور ایشو ہے، لیکن اسے تماشا کس نے بنایا ،سول حکومتوں کو برا بھلا کہنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ آرمی چیف جنرل مشرف ہی تھے کہ جو کنٹرول لائن کو بھی سرحد بنا کر معاملہ طے کرنے پر تیار ہو گئے تھے ،اب تو حریت لیڈر سیدعلی گیلانی نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ یقیناًایسا کوئی حل ہمیں قبول نہیں، ہم کشمیر کا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں، فی الوقت ایسا ممکن نہیں تو پھر کیوں نہ خود کو زیادہ بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت بنانے پر توجہ دی جائے۔ سرکریک اور سیاچن جیسے جو مسئلے حل ہو سکتے ہیں ان پر بات چیت شروع کر کے کسی حتمی فیصلے پر پہنچا جائے۔ خطے میں درپیش مسائل کے باعث محدود عرصہ کے لئے ہی سہی جنگ نہ کرنے کا علانیہ معاہدہ کر لیا جائے تو کئی طرح کے ثمرات سمیٹے جا سکتے ہیں۔ بغیر کچھ لئے دئیے جنگی ماحول بنائے رکھنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ مذاکرات کا سلسلہ شرو ع ہو گا ،تجارت کھلے گی تو اس کے اثرات دونوں ملکوں کے عوام تک جائیں گے۔ لڑائی کے امکانات کو کم ضرور کیا جائے، لیکن پاکستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ ٹھوس شواہد کے ساتھ اٹھایا جائے۔ باوقار انداز میں مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کیا جائے۔ پاکستانی قیادت کو معذرت خواہانہ رویہ ترک کرنا ہو گا، یہ سب اقدامات نہایت ضروری ہیں ،لیکن تعلقات کو نارمل کرنا بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ناگزیر ہوتا جارہا ہے۔
ہمیں اپنے آس پاس کے ماحول کا آنکھیں کھول کر جائزہ لینا ہو گا امریکی ہدایات پر عمل پیرا افغان صدر اشرف غنی اگر پاکستان کے لئے کچھ ہمدردی رکھتے ہیں تو جان لیا جائے کہ بھارت کے ساتھ بھی ان کے تعلقات کسی تناؤ کا شکار نہیں۔ ایٹمی مسئلے پر معاہدے کے بعد ہٹنے والی اقتصادی پابندیاں ایران کو پورے خطے میں وسیع کردار کا موقع دیں گی۔ اس سارے عمل کے سیاسی اثرات بھی ہوں گے۔ بھارت اور ایران گوادر پورٹ کا مقابلہ کرنے والی چاہ بہار بندرگارہ سمیت کئی معاملات پر ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ پاکستان اپنی تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود ان اثرات کی زد میں آسکتا ہے۔ علاقے میں دہشتگردی کے امکانات بظاہر کم ہوئے ہیں ،لیکن شاید ایسا نہیں ،بعض مبصرین کے مطابق یہ آتش فشاں کی صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس تمام صورت حال میں بہتر ہو گا کہ بھارت کے حوالے سے حقیقت پر مبنی پالیسی اختیار کی جائے، یہ بات ،مگر طے ہے کہ پاکستان کو خود کو نہ صرف اقتصادی، بلکہ فوجی لحاظ سے مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہو گا۔ دفاعی لحاظ سے کمزور پاکستان کا تصور ہی تباہ کن ہے، بلکہ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ جذبہ جہاد کو زندہ رکھ کر عسکری تیاریاں بھی جاری رکھی جائیں ،لیکن خطے میں پیدا ہونے والے اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ ایک مضبوط پاکستان ہی بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے لئے امید کی کرن بن کر ان کی زندگیوں میں بھی آسانیاں لا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات برابری کی بنیاد پر بہتر ہو گئے تو اس کے مثبت اثرات بھارت میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر بھی مرتب ہوں گے۔
کشمیر کے حوالے سے تجاویز تو بہت ہیں اور آتی رہتی ہیں، اس نازک معاملے پر بات کرنے سے پہلے ،مگر حساسیت کو کسی طور نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خودمختار کشمیر کی تجویز پیش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب عظیم، بلکہ عظیم ترین پاکستانی شخصیت ہیں، ان کی بات کی کلی مخالفت کی جسارت تو نہیں پھر بھی یہ سوچ لیا جائے کہ ایسی کسی ممکنہ صورت میں وہاں موجود بھارتی لابی کسی ’’حسینہ واجد‘‘ کو آگے لانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر کیا ہو گا، ہم تو یہی کہتے ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گا۔انشاء اللہ۔