ایک جیون، کئی کہانیاں (1)
اسے کاپی رائٹ حقوق سے میری غفلت کہہ لیں یا دوستی کے تقاضوں کی خلاف ورزی ، لیکن جی یہی چاہتا ہے کہ جانے پہچانے صحافی ، ترجمہ نگار اور براڈ کاسٹر علی احمد خاں کی کتاب ’جیون ایک کہانی‘ کا نام تبدیل کر دوں ، اور نیا عنوان ہو ’ایک جیون کئی کہانیاں‘ ۔ اس خواہش کے پیچھے یہ کہانی ہے کہ نئی صدی سے سولہ برس پہلے جب ہم پہلی بار ملے تو تعارف یہ کہہ کر کرایا گیا کہ خاں صاحب پچھلے مہینے کراچی سے لندن پہنچے ہیں ، اس لئے بی بی سی میں آپ سے کچھ ہی سینئر ہیں ۔ اُس وقت میری عمر آج کے مقابلے میں نصف تھی اور علی احمد مجھ سے دس بارہ سال بڑے ہوں گے ۔ دفتر کی کہنہ مشق ہستیوں کے سامنے ہم دونوں نوزائیدہ کارکن شمار کئے گئے ۔ پھر بھی جلد محسوس ہونے لگا کہ زندگی کے تجربے میں میرا ساتھی مجھ سے کئی صدیاں آگے ہے اور ایک جیون میں کئی جیون گزار چکا ہے ۔ یہ ہے میرے کالم کا مُکھڑا ۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے کہ واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ لے کر چلوں اور ایک ایک کر کے سب کہانیوں کی پرتیں کھلتی چلی جائیں ۔ خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہو گا ، بس لمحے دو لمحے کی مہلت چاہئیے تاکہ فلیش بیک میں علی احمد خاں کے بچپن کی ذرا سی جھلک دکھائی دے جائے ۔ جیسے یوپی میں ضلع غازی پور کے قصبے زمانیہ میں ان کی پیدائش ، خاندان کا زمیندارانہ اور کاروباری پس منظر اور موجودہ بھارتی شہر چنئی کے نواح میں چچا کے پاس قیام جن کا تعلق ائر فورس سے تھا ۔ یہیں مسٹر لارنس کی ہمسائیگی میسر آئی جو تھے تو عیسائی مگر ان کی بیگم ہندوستانی حساب سے گوری تھیں ۔ پھر پاکستان کو مستقل روانگی جب ابا سے رخصت ہوتے ہوئے ’مجھے رونا آ گیا ، لیکن طیارہ جیسے ہی ہوا میں بلند ہوا ، ہم دونوں بھائی زندگی کے اِس نئے تجربے میں کچھ اس طرح کھوئے کہ ابا اماں سب بھول گئے‘ ۔
الوداعی سفر کا تجربہ اُس سلسلے وار عمل کی ابتدا ہے جس میں پاکستان پہنچ کر ہمارے مصنف کو بطور طالب علم اپنے چچا کے ساتھ کراچی ، نوشہرہ اور پشاور کے فوجی بنگلوں میں رہنے کا موقع ملا ۔ پھر مشرقی پاکستان میں خاندان کی دوبارہ یکجائی ، ڈھاکہ ، چاٹگام اور دیناج پور میں مصنف کی صحافتی اور سیاسی سرگرمیاں ، اور بالآخر 1971 ء کے فوجی ایکشن کے جلو میں بدلتی ہوئی صف بندیاں اور ایک بہت بڑے ذاتی المیے کا وہ منظر جب ’بنگالی دوست میرے سامنے اپنی مظلومیت کا رونا نہیں رو سکتے تھے ، اس لئے کہ میں ان سے زیادہ مظلوم تھا ، اور بہاری یا غیر بنگالی دوست میرے گھر والوں کی قربانیوں کے معترف اور ان سے مرعوب تھے ‘ ۔ کتابی صورت میں یہ سب پڑھنے کو اب ملا ہے ، لیکن یہ تو بہت پہلے پتا چل گیا تھا کہ ناول نگار چارلس ڈکنز کی مشاہداتی معصومیت یونہی علی احمد خان کی بصیرت کا حصہ نہیں بنی ۔ معصومانہ بصیرت کا تازہ اظہار زیر نظر آپ بیتی ’جیون ایک کہانی‘ کی اشاعت ہے ، جس سے خود خاں صاحب یا ان کے گھر کے کسی فرد نے ہر گز آگاہ نہ کیا ۔ ہاں ، سرسری طور پر ایک اخباری تبصرہ پڑھ کر دل میں خوشی کی جو لہر اٹھی ، مَیں نے اُس کے نتیجے میں ایک دوست سے رابطہ قائم کیا ، جن کا کہنا تھا کہ کتاب رواں سال کے آغاز میں کراچی سے شائع ہوئی تھی اور لاہور کے ایک بُک سیلر کے پاس بھی دستیاب ہے ۔ اب سوچیں ، اردو کے 219 صفحات پڑھتے ہوئے دیر ہی کتنی لگتی ہے اور وہ بھی ایسے شخص کی تحریر جسے ، پروفیسر کرامت حسین جعفری کے الفاظ میں ، آپ نے ادراکی اور جذباتی دونوں سطحات پہ سمجھا ہو ۔ اب جو کتاب ختم کرتے ہی صبح صبح علی احمد خان کو ایبٹ آباد فون کیا تو آواز سن کر خوش تو ہوئے،مگر باقی مکالمے میں وہی بے نیازی تھی جو ان کی معصومانہ بصیرت کا لازمہ ہے ۔
عرض کیا کہ آپ نے کئی سال پہلے بتایا تھا کہ کتاب کا مسودہ تیار ہے لیکن ضخامت بہت زیادہ ہو گئی ہے ، پھر اس موضوع پہ بات ہی نہیں ہوئی ۔ ’ہاں یار ، وہ چھپ گئی ‘ لہجے میں ایسی غیریت تھی جیسے کسی اور کی کتاب ہو ۔ میں نے کہا ’خاں صاحب ، ہے تو یہ خود نوشت، مگر یہ ہمارے ملک کی پولیٹکل اور کلچرل ہسٹری بھی ہے ، کیونکہ پاکستان بننے کے بعد لوگوں میں بہت تبدیلیاں آئیں ۔ آپ کے فوجی افسر چچا کا سمجھانا کہ مہمانوں کے سامنے اپنے اُن ماموں کا ذکر کیوں کیا جو ایک سرکاری ادارے میں کلرک تھے ، اسی طرح حساب کتاب مانگنے پر خانساماں کا چچی کو جتانا کہ انگریز میمیں حساب نہیں لیتی تھیں، بلکہ بخشیش بھی دیتی تھیں ۔ خاں صاحب ، میں کتاب پہ کالم لکھوں گا‘ ۔ اس پہ جو جواب ملا اس پر علی احمد خاں کے نام کی مہر ہے ’ارے یار ، آپ لکھیں یا نہ لکھیں ، کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ۔ میری جگہ کوئی بھی ’سکہ بند جرمن‘ دانشور ہوتا تو اس ’بے رخی‘ کو یہ سوچ کر ضرور مائنڈ کر تا کہ کمیونی کیشن ریوولیوشن کے سنہری عہد میں تخلیق کار کا وائبر ، واٹس ایپ یا سوشل میڈیا پر اپنی ہی اشتہاری مہم چلا دینا ندامت نہیں ، سعادت ہے ۔ اس امکانی تنقید کا جواب دینے کے لئے ، میں بقائمیِ ہوش و حواس خاں صاحب کا وہ پسندیدہ فارسی محاور ہ دہرانے کے لئے بے تاب ہوں جس میں ’قلندر‘ سے پہلے ایک مقبول لفظ لگا کر مرکبِ اضافی مکمل کر دوں تو ہماری اسلامی جمہوریہ میں ایک نیا طوفان کھڑا ہو جائے ۔ فارسی کا سہارا لینے کی بجائے عام فہم بات کی جائے تو بے نیازی کے عمومی رویے کی طرح علی احمد کی حقیقت پسندی بھی ان کی معصومانہ بصیرت کا لازمی جزو ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ اس کے پیچھے خودستائی یا کسی کی تحقیر کے جذبہ کو دخل ہے تو میرے مولا ’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں‘۔
مَیں علی احمد خاں کی حقیقت پسندی کا کس حد تک معترف ہوں ، اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگائیے جب بی بی سی اردو میں شامل ہوتے ہی ابتداً ہم دونوں آل انڈیا ریڈیو کے منجھے ہوئے براڈ کاسٹر مجیب صدیقی کی نگرانی میں دے دیئے گئے۔ کچھ دنوں میں بے تکلفی بڑھی تو خاں صاحب کی دیکھا دیکھی میں بھی مجیب صدیقی کو ’استاد‘ کہنے لگا ۔ عجیب اتفاق کہ ایک روز پروگرام ’سیربین‘ میں بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد کے لئے میرے منہ سے ڈرامہ نگار حسینہ معین کا نام نکل گیا ، جس پر میں دل ہی دل میں شرمندہ تھا ۔ یہی حرکت پھانسی یافتہ کشمیری رہنما مقبول بٹ کے سلسلے میں بطور نیوز ریڈر خاں صاحب سے ہوئی اور وہ مرحوم کے نام کے ساتھ ’شہید‘ کہہ گئے ۔ بی بی سی کے نزدیک ، یہ کوتاہی قابلِ گرفت ہو سکتی تھی مگر میرے دوست نے کوئی بات نہ چھپائی اور ہر کس و ناکس کو خود ہی سارا قصہ مزے لے لے کر سنا دیا۔
کچھ مدت گزری تو پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں زیادہ لطف رات کی ڈیوٹی میں آنے لگا ۔ کبھی میں خبریں کر رہا ہوں اور خاں صاحب حالاتِ حاضرہ کا پروگرام ’جہاں نما‘ اور کبھی ترتیب اس کے الٹ ۔ ایک مرتبہ خاں صاحب کی اصطلاح میں ، اُن کی جگہ کوئی اور میری اردل میں تھا ۔ خیر ، رات دو بجے ٹرانسمیشن کے بعد اسٹوڈیو سے واپس آیا تو دیکھا کہ اوور کوٹ غائب ۔ سخت سردی میں کار تک کیسے جاؤں جو لنکنز اِن کے باہر کھڑی ہے ؟ اچانک اُس کمرے سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جہاں دن کے وقت سارہ نقوی اور اطہر علی بیٹھا کرتے تھے ، لیکن اس وقت تاش کی محفل عروج پہ ہے ۔ مجھے دیکھتے ہی ایک نعرہ بلند ہوا اور خاں صاحب نے کہا ’ کوٹ اس لئے اٹھایا تھا کہ آپ گھر جاتے ہوئے مجھے ، پرتھوی راج اور وقار بھائی کو ڈراپ کرتے ہوئے جائیں ۔ پھر میرے لئے یہ ایک خوشگوار معمول بن گیا۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ رات گئے دوستوں کے قہقہہ بریگیڈ کو ڈھونے میں کتنی لذت ہے ۔
اور اب ’ایک جیون ایک کہانی‘ کے مصنف کی انسان دوستی ، جسے میَں عمومی بے نیازی اور حقیقت پسندی کی طرح ان کی معصومانہ بصیرت کا جزو کہنے پہ اصرار کروں گا۔ دیارِ غیر میں، جہاں پہنچنے کے لئے عام پاکستانی اپنی کشتیاں وطنِ عزیز ہی میں جلا کر روانہ ہوتے ہیں ، ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ بی بی سی کے سینئر ساتھیوں کی ریٹائرمنٹ قریب ہونے سے نئے لوگوں کی ترقی کا امکان دکھائی دینے لگا ۔ علی احمد خاں مجھ سے پختہ تر صحافیانہ مہارت اور ادارتی پرکھ کے مالک تھے اور زندگی کے تجربے میں بھی کئی صدیاں آگے ۔ پھر بھی جب اس مسئلے پر آپ کی رائے لی گئی تو فرمانے لگے ’میں شاہد ملک کو بہتر سمجھتا ہوں ، ایک تو کم عمر ہے ، اس لئے زیادہ عرصہ کام کر سکے گا ، دوسرے اس کے مزاج میں شو بزنس والی بات بھی ہے ‘ ۔ اس نکتے پر ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ، لیکن آئندہ اتوار کے لئے میرا وعدہ ہے کہ علی احمد خاں کی کتاب کا سارا مواد اسی مشاہداتی معصومیت میں گندھا ہوا ہے ۔ (جاری ہے)