جاوید انور۔۔۔ دابیوروکریٹ، دارائٹر اینڈ دامسنگ لنکس (2)
’دشت وحشت‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ’’گاڑی جب اسٹیشن چھوڑتی ہے تو ایک اداسی پیچھے پلیٹ فارم پر رینگتی اور خالی پٹڑی سے چمٹی رہ جاتی ہے۔ گاڑی خود بھی بہت اداس ہوتی ہے لیکن بہت سی رونق اپنے اندر سمیٹ کر چلتی ہے۔ ص83۔ یوں تو یہ سرحد پر جانے والی ایک عام گاڑی کے بارے میں ہے لیکن متن کو جیسے ہی اس کے سیاق و سباق سے ماورا دیکھنے کی کوشش کریں گے آپ کو لگے گا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ جاوید انور اپنی زندگی کے سفر کی گاڑی کا ذکر کر رہے ہیں۔ گاڑی آگے بڑھ گئی ہے لیکن اداسیوں کا ہیولیٰ تعاقب کئے ہوئے ہے۔ بیانیہ اور منظر کشی پر قدرت کے حوالے سے یہ پیرا گراف ملاحظہ کریں ’’سورج دن بھر گاڑی کے آگے پیچھے پھرتا بالآخر ایک سمت ہو کر بیٹھ گیا اور صحرا بتدریج تاریکی میں ڈوب گیا، ایک پر اسرار خاموش اندھیرا چاروں طرف محو خواب تھا اور تاروں بھرا آسمان گاڑی پر تنا ساتھ ساتھ بھاگا جاتا تھا۔ دشت وحشت ص 91۔‘‘
ان کا موضوعاتی وجود رواں صدی کے سماجی رویوں، نفسیاتی عوامل، وجودی محرکات کو مقامیت میں گوندھ کر اٹھایا گیا ہے۔ وہ انسانی روابط کو مضبوط بناتے ہوئے داخلی منظر نامے سے مربوط کر دیتے ہیں گویا خارجیت سے داخلیت یا احتساب و مشاہدۂ ذات کا سفر۔ افسانہ بھٹی کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں ’’اس سے پہلے کہ چھیداں یا کوئی بھی موجود فرد اس کی کیفیت بھانپ سکتا اس نے طوفان کی طرح لپک کر بھٹی کے ایندھن والی سمت دھانے پر اپنی مشک پہنچائی اور ڈھیروں پانی بھٹی میں انڈیل دیا۔ بھٹی سے گھٹی چیخیں اور دل دوز آہیں نکلیں۔ دھواں اور آگ ملے پانی کی ناخوشگوار مہک ہر خوشبو پر غالب آ گئی اور پورے گاؤں پر سوگ پھیل گیا۔ ص 52-51‘‘ان کی کہانیوں کی ایک خاص بات ہے کہ وہ کہیں پندو نصائح یا وعظ سے کام نہیں لیتے، اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتے ہیں بلکہ جو کچھ ہے اور جیسا ہے قاری کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ایک منظر کھینچتے ہیں، ان میں کرداروں کو ان کی پوزیشنوں پر کھڑا کرتے ہیں اور ہر کردار ہاتھ باندھے اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ ہر کردار اپنے وقت پہ اپنا مکالمہ ادا کرتا ہے۔ یوں نہ کم نہ زیادہ والا معاملہ گتھی سلجھاتا یا الجھاتا آپ کے سامنے ہوتا ہے اور داستان گو آپ کے اندر شعور ولا شعور کی کئی نئی جہتیں کھولتا، نئے روزن وا کرتا، فکر کی ایک نئی چنگاری روشن کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ دیہی کرداروں کی تحلیل نفسی اور جزئیات نگاری میں ان کا قلم فلم کی طرح چلتا ہوا نظر آتا ہے۔
نفسیاتی حوالے سے اگر ان کے کچھ افسانے دیکھے جائیں تو بھڑ، غرض اور دلہن میں مرکزی کرداروں کی نفسیات کو اس انداز میں کھول کے رکھ دیا ہے کہ قاری اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ایگو۔ ڈیفنس میکانزم کو جس طرح راجہ میں بیان کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک کمال ہے۔ چونکا دینے والی صاف گوئی ان کی تحریر میں جا بجا ملتی ہے اور آپ حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب وہ اپنے ہی طبقہ کے خلاف سماجی نا انصافیو ں کی بات کرتے ہیں۔ چودہ افسانوں اور تیرہ افسانچوں میں زندگی کے وہ تمام اہم رنگ موجود ہیں جنہیں کائنات کو پینٹ کرنے کے لئے ایک مصور کو ضرورت پڑتی ہے۔ سائنس فکشن پہ مبنی افسانچے را طوطا صاحب اور جشن گو کہ علامتی تحریریں ہیں مگر ان میں جس طرح سے معاشرے کے طاقتور طبقے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خاص طور پر را طوطا صاحب تو مکمل طور پہ سیاسی استحصال کے اردگرد گھومتی ہے۔ جاوید انور نے صرف خارجی طاقتوں کو ہی موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ ان داخلی طاقتوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے جو ایک خوف کی صورت میں ہماری نفسیا ت و حسیات میں پیوست ہیں اور ہماری جرأت و استقلال کو دیمک کی طرح چاٹ ڈالتی ہیں ’آخری بات‘، ’آخری رات‘ اور ’گھر‘ اس کی شاندار مثالیں ہیں۔ جاوید انور بلاشبہ ایک خاص آدمی ہیں۔ خاص آدمی اس معنی میں کہ وہ بیورو کریسی کی آخری سیڑھی پر ہیں مگر عام آدمی کو اپنے اندر سے مرنے نہیں دیتے۔ اسے زندہ رکھتے ہیں کہ یہی عام آدمی ان کی کہانی ہے اور کہانی زندہ رہے گی کہ یہی زندہ رہنا ہی دراصل اس کی موت ہے۔
ملان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے کہ کئی برسوں بعد جب میں اپنے ملک چیک جمہوریہ واپس گیا تو میرے دوست مجھے اپنی اپنی کہانیاں سنانے میں مگن ہو گئے۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ ان برسوں میں میں کیا کر رہا تھا۔ ایک کہاوت ہے ’’Every body loves good audience" ہر ایک اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے، ہر ایک کو اچھا سامع پسند ہے۔ کندرا بھی سنانا چاہتا تھا۔ لیکن جاوید انور اپنی کہانی نہیں سنا رہے ہیں(کیا ان کے پاس کہانیاں نہیں ہوں گی؟) وہ عام لوگوں کی کہانی بیان کر رہے ہیں’ کچھ خواب کچھ اصل ہے، کچھ طرز ادا ہے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بیورو کریٹ او ر رائٹر کی کہانی میں کچھ زیادہ دوری نہیں پائی ۔بیورو کریٹ اور رائٹر کے درمیان کچھ خاص گیپ نہیں ہے۔ کچھ زیادہ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ کچھ ایسا ہے جو ان دو کے درمیان مسنگ ہے۔ بیچ میں کوئی ایک کڑی کمزور ہے۔
اب وہ مسنگ لنکس یا کمزور کڑیاں کیا ہیں آئیے ان پر بات کرتے ہیں۔ جاوید انور کے افسانوں میں افسانے کے تمام فنی لوازمات موجود ہیں، سارے افسانے اپنی بنت میں میچور ہیں لیکن کہیں ’حال‘ وجد آفرین کیفیت میں تبدیل نہیں ہو پایا ہے او ر مجھے اس کی جو وجہ سمجھ میں آ رہی ہے وہ یہ کہ جاوید انور قومی مقتدرہ کا حصہ ہیں۔ اس لئے بہ حیثیت ایک تخلیق کار کے جب وہ غربتوں کے مارے ہوؤں پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس تخلیقی عمل میں دیر تک قیام نہیں کر پاتے جو کیفیت کے لئے لازمی ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اب وہ عمر کے ایک ایسے مرحلے میں ہیں جہاں کیفیت اپنے مدار کو پار کر کے میچور ہو گئی ہے۔ بہرحال جو بھی وجہ ہو لیکن ایک آنچ کی کمی ضرور نظر آتی ہے۔ کتاب ختم کرنے کے بعد اطمینان تو محسوس کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک خلش بھی ٹیسیں مارنے لگتی ہے۔ تعین قدر کی خلش ۔کوئی ایک ایسی چیز درمیان میں موجود ہے جو تعین قدر کی راہ میں حائل ہے اور اسے میں ’مسنگ لنکس‘(گم شدہ کڑیوں) سے تعبیر کروں گی جو تخلیقی عمل میں کیفیات کے انجذاب و تحلیل کے فقدان کی صورت میں کہیں کہیں نظر آئی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس کینوس کا فقدان ہے جو افسانوں کو ایک بڑا افسانہ بناتا ہے۔ برگد، آخری گجرا اور دشت وحشت میں ایک بڑے افسانے کی ساری خوبیاں موجود ہیں لیکن یہی بات تمام افسانوں کے بارے میں وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتی ہوں ہر چند کہ موضوعاتی تنوع ہے لیکن اس ’فلسفیانہ‘ اساس و تفکر کی کمی محسوس ہوئی ہے جو افسانے کی تہہ داریوں میں معنوی امکانات کا جہان تلاش کرنے کے لئے رکنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان اعتراضات کے باوجود جاوید انور کو میں یہ اسپیس دوں گی کہ انہوں نے صرف اور صرف اپنی تخلیقی صلاحیت کی بنیاد پر بہت کم عرصے میں اور بہت آسانی سے خود کو معاصرین کے درمیان منوایا ہے اور یہ میں کوئی احسان نہیں کر رہی ہوں بلکہ یہ ان کا حق ہے۔ ایک سال کے اندر شاعری اور افسانے کی دو کتابیں منظر عام پر لانا ایک عام ذہن کے بس کی بات نہیں۔ یہاں لوگ دس دس سال سے قلم گھسیٹ رہے ہیں اور نہیں لکھ پا رہے ہیں۔ یہ قلم معجزہ ہے ہر ایک کو نہیں دیا جاتا۔ امید ہے جلد ہی اور خوبصورت کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔ اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے۔ (ختم شد)