پیر ابونعمان
کسی پیر اور عملیات کے ماہر پر سحری اثرات کا الٹا اثر ہوتا ہے تو وہ بڑی تکلیف برداشت کرتا ہے۔ سحر وغیرہ سے بچنے کے لیے ہر عامل کے لیے اپنا تحفظ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ یہ صدقات و شکرانے وغیرہ اسی مد میں لئے جاتے ہیں۔
پیر سائیں نواب دین کو جنات نے قابو کر لیا تھا۔ وہ خود لوگوں کے جنات اُتارتے تھے لیکن ایک روز وہ خود ان کی پکڑ میں آگئے۔ یہ سر پھرے جنات تھے اور دونوں غیر مسلم تھے۔ ایک کا نام گروارجن سنگھ اور دوسری ملکہ سبھراتی تھی۔
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر6 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
سائیں نواب دین کی حالت نہایت خراب ہو چکی تھی۔ دونوں جنات اس کی گردن کو پہیّے کی طرح گھماتے تھے۔ آپ خود سوچیں کیا انسان کی گردن چاروں جانب گھوم سکتی ہے؟ گردن کی ہڈیاں اور اعصاب نہایت حساس ہوتے ہیں مگر جب جنات انسان کو تکلیف دیتے ہیں تو وہ اس گوشت پوست کے انسان کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں ۔ سائیں نواب کا سر گردن پر چاروں جانب لٹوکی طرح گھومتا تو اس کی آنکھوں اور منہ سے بے تحاشا پانی بہنے لگتا۔ چہرہ بگڑ جاتا۔ آنکھیں اُبل جاتیں۔ دیکھنے والے اسے دیکھتے اور توبہ توبہ کرنے لگتے۔
سائیں نواب دین ایک اچھے انسان تھے اور کبھی غلط کام نہیں کرتے تھے مگر جنات کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ ان کا کوئی علم ان کے کام نہیں آیاتھا۔ گھر والے انہیں لے کر کئی آستانوں پر گئے مگر کوئی ان پر ہاتھ نہ ڈال سکا اور پھر ایک روز سائیں نواب دین کی حالت قدرے سنبھلی تو انہوں نے اپنے بچوں سے کہا کہ مجھے پیر محمد رمضان سیفی کے پاس لے چلو۔ ایک وقت تھا جب وہ اہل سیفیہ کی بزرگی کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور استہزاء کرتے کہ کیا کسی انسان کا قلب اور لطائف بھی ہوتے ہیں۔ یہ کیسا ذکر ہے جو انسان کو اپنے اللہ کے قریب کر دیتا ہے۔ اس طرح کے لوگ سیفی اہل اللہ کو کڑی آزمائشوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ مگر یہ میرے دادا مرشد حضرت مبارکؒ کی برکات ہیں کہ انہوں نے ہمیں اللہ سے قربت کا سلیقہ سکھا دیا۔ اہل سیفیہ اپنی عبادات میں اور شیوخ کے ادب میں نہایت اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ دنیا داری بھی کرتے ہیں مگر ان کے رگ وپے میں اللہ کا ذکر جاری رہتاہے۔
سائیں نواب دین کو جب میرے پاس لایا گیا تو میں نے مناسب خیال کیااور انہیں اپنے مرشد حضرت پیر محمد عابد سیفی دامت برکاتھم کی خدمت میں پیش کیا اور ان کے علاج کے لیے درخواست کی۔ میرے مرشد سرکار نے پہلی نظر دیکھتے ہی فرمایا ’’رمضان اس کا علاج تم کرو۔‘‘
میں بتا دوں کہ ان دنوں ابھی میں مالی پورہ تلونڈی میں تھا اور ابھی لاہور ہجرت نہیں کی تھی۔ میں نے عرض کی ’’سرکار مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’تجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔‘‘ میرے مرشد کریم نے تعجب سے کہا۔پھرمجھے توجہ فرمائی اور تین بار تھپکی دی۔ ’’سنو رمضان، جنات غیر مسلم ہوں یا پھر جتنے بھی طاقتور ہوں۔ وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اب تم ہی سائیں کا علاج کرو گے۔اور ایک صرف یہ سائیں تک نہیں تم بیمارجنات کا علاج بھی کرو گے‘‘
میں بڑا حیران ہوا’’سرکار مجھے تو حکمت اور طب کا علم نہیں آتا ،میں بیمار جنات کا علاج کیسے کروں ‘‘میرے سرکار خود ایک جید عالم اور عملیات کے شہنشاہ ہیں اور آپ نے طب و حکمت بھی کررکھی ہے۔ایک مستند معالج کے طور پر سرکار کا شہرہ ہے۔اس وقت دریائے فقیر جوبن پر تھا۔فرمایا ’’اللہ کا کرم ہوگا اور یاد رکھوں اللہ کے سچے فقیر جب کوئی بات کہہ دیں تو ربّ کریم ان کی حیا رکھتا ہے۔یہ جنات ونات کیا چیز ہیں ،میرے رب کی مخلوق ہیں اور جب تمہیں اللہ کے علم سے مسیحائی کا اذن ملے گا ،ربّ ذوالجلال کی رضا ہوگی، سوہنے سرکار آقائے دوجہاںﷺ سے تمہارا عشق اتباع سے منسوب ہوگا تو کرم ہوگا ،کرم ہوگا‘‘
سرکار کی باتیں سن کر مجھ پر رقعت طاری ہوگئی اور ایسی کیفیت بن گئی کہ یوں لگا جیسے میں اپنے آپ میں گھل گیا ہوں ،ایک لطافت اور نور نے مجھے گھیر لیا۔معاً میں حواس میں آگیا کیونکہ اس دوران سائیں نواب دین گڑگڑانے لگا۔وہ اٹھااور مرشد سرکار کے آستانے کی چوکھٹ پر بیٹھ گیا اور ان کی جوتیاں اپنے سر پر مارتے ہوئے گریہ کرنے لگا۔
’’حضور میرا علاج آپ کریں یا آپ کا یہ خادم ،اس عذاب سے میری جان چھڑوا دیں۔ میں امید لے کر آیا ہوں کہ سیفی پیر بڑے تگڑے ہوتے ہیں۔ آپ کے نام کا بہت چرچا ہے۔ اللہ رسولﷺ کا واسطہ ہے میرا کچھ کر دیں اور ان خبیثوں سے میری جان چھڑوا دیں۔‘‘ اس بات میں میرے مرشد کی حکمت تھی کہ آپ نے اسے تین روز آستانے میں پڑا رہنے دیاپھر میرے پاس بھیج دیا اور مجھے اس کا علاج بھی تجویز کر دیا۔ اس روز میں نے تایا سے پوچھا ’’آپ میرے مرشد کی جوتیاں سر پر کیوں مارتے تھے۔‘‘
وہ بولا’’اللہ کے ولی کی جوتیاں کھانے سے شیطان بھاگ جاتا تھا اور مجھے سکون ملتا تھا۔‘‘ اس وقت تک سائیں نواب دین کی حالت یہ تھی کہ وہ سیدھا چلنا چاہتا تھا مگر جنات اسے الٹا چلاتے اور بھگاتے تھے۔ درجنوں لوگوں نے اس کی یہ حالت دیکھی تھی۔ دن رات جاگتا رہتا تھا، نہ نیند، نہ کھانا پینا، حالت نہایت خراب تر ہو چکی تھی۔(جاری ہے )
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(اس داستان کے بارے میں اپنی رائے دیجئےsnch1968@gmail.com )