جے آئی ٹی اور سیاسی مستقبل
جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے فوری بعد پاکستان میں سیاسی ہل چل تیز ہوچکی ۔حکومتی وزراء اسے ردی کی ٹوکری قرار دیکر قانونی جنگ لڑنے کاعندیہ دے رہے ہیں تواپوزیشن وزیراعظم سے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اہم بات وزیراعظم نواز شریف اور ان کے دو نو ں بیٹوں کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش ہے ۔دسویں باب کے علاوہ تمام دستاویزات پبلک کر دی گئی ہیں ۔ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد تحریک انصاف کے حلقوں میں خوشی کا سماں ہے ، دوسری طرف ن لیگ نے سیاسی رابطے تیز کر دیے ہیں اور سابق سنیٹرظفر علی شاہ نے وزیراعظم کو مشورہ دے ڈالا کہ وہ چودہری نثار کو وزیراعظم کا قلم دان تھما کر خاندان پر لگنے والے مالی کرپشن کے الزامات کو پارٹی سے الگ کر یں۔
جے آئی ٹی نے ن لیگ کی ساکھ بری طرح متاثر کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر شہری سندھ میں اپنے وجود کا احساس دلادیاہے ۔ زرداری صاحب کا چند دن پہلے کا بیان بھی قابل غور ہے جس میں انہوں نے الیکشن اپنے مقرر وقت پر ہونے کا عند یہ دیا ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد جو دوست اسمبلیوں کی تحلیل پر غور و فکر کر رہے ہیں تو ان سے معذرت کے ساتھ، اب مرکز چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیارات سے قاصر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب ان ہاؤس چینج کیلئے کس کو منتخب کرتے ہیں ۔کچھ حلقوں کے خیال میں ایاز صادق ایک اچھا نام ہو سکتا ہے اور وہ پہلے بھی ٹویٹر والے تنازعہ میں ثالثی کا کردار ادا کر چکے ہیں۔
تحریک انصاف کو اب سمجھنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی، فضل الرحمان اور دیگرپارٹیوں کی اپنی اہمیت ہے ، وہ دن گئے جب اکیلے میں اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کی جاتی تھی ،کچھ لو اور کچھ دو پرسیا ست ہو تی ہے ۔یہ امریکہ کا صدارتی نظام نہیں جہاں عوام کا ووٹ صدارتی امیدواروں کو پڑتا ہے اور وہاں بھی سیاست کو ایک لمبا عرصہ درکارہوتا ہے اورپس پردہ مختلف ریاستوں کے مقتد رحلقوں کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ چل رہا ہوتا ہے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔