پاکستانی اپنے مسائل کا حل خود ڈھونڈیں
اس وقت پاکستان بہت سے مصائب و مشکلات میں گرا ہوا ہے۔ ایک طرف بین الاقوامی برادری کا دباؤ ہے کہ پاکستان خطے سے مذہبی انتہا پسندوں کا خاتمہ کرے، ادھر ہم خود ان انتہاپسندوں کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ پچھلے دنوں جو پے درپے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اور ان میں ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں کی شہادت اور سیکڑوں زخمی ہوئے، ان واقعات نے پاکستان کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پہلے بھی لکھا تھا گو پاکستان کی دفاعی فورسز نے وقتی طور پر دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا لیا ہے ،تاہم ابھی اس کی جڑیں اپنی جگہ موجود ہیں اور یہ کسی بھی وقت پھر سے سر اٹھا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان معاشی طور پر بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہے اور غیر ملکی قرضوں کے نیچے کراہ رہا ہے۔ ایک طرف ملک کے اندر بے روزگاری پنجے گاڑے کھڑی ہے تو دوسری طرف مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ان تمام حالات میں ہماری سیاسی قیادت اور بڑے ادارے آپس میں دست و گریبان ہیں،جبکہ عوام کئی قسم کی آسیں لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح ہمارے حالات بہتر ہوں اور ہمارے ہاں بھی خوشحالی آئے۔ ایک طرف عوام کی نظریں آنے والے انتخابات سے(جن میں تادم تحریر ابھی وہ دم اور گہما گہمی نہیں ہے ) کچھ غریب تو اس امید میں ہیں کہ جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے تو امیدواروں میں ان کی اہمیت میں اضافہ ہوگا اور کچھ کام بنے گا۔ دوسری طرف لوگ نئی آنے والی حکومت سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں جیسے اس حکومت کے آتے ہی ان کے تمام مسائل کا حل نکل آئے گا۔
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہمیشہ اچھے وقت اور خوشحالی کا انتظار تو کرتے ہیں اور کسی مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں، تاہم یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشروں کے بننے میں افراد کا اپنا کردار بھی ہوتا ہے اور ہم خود بھی ان افراد میں شامل ہیں اور اپنا کردار ادا کرنا اور اپنے حصے کا کام کرنا بھی ہم پر فرض ہے، اس کے بغیر ایک صحت مند معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ہے،لیکن حقائق یہ ہیں کہ ہماری اکثریت خود سستی اور کاہلی کا شکار ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک ہمارا خاندانی نظام بھی ہے، یعنی پورے خاندان میں سے کوئی ایک کمانے والا ہے اور باقی کھانے والے۔ خواتین کو تو ویسے ہی ہم نے گھریلو کام تک محدود رکھا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ ہمارے ہاں اعتبار اور خود اعتمادی کا بہت فقدان ہے۔ پاکستان کے لوگ اپنے اندر کی روشنی اور صلاحیتوں کو تلاش کرنے سے عاری ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر کام کے لئے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں، حالانکہ ہماری حکومتیں وہ کام بھی نہیں کرتیں جو ان کے کرنے کے ہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان سانجھ داری اور افہام و تفہیم کی صلاحیت بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر کوئی اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک وجہ مذہب بھی ہے، لوگ اپنا کام کرنے کی بجائے غیب سے کسی امداد کے منتظر رہتے ہیں اور اس کے لئے مختلف قسم کی تسبیح، جادو ٹونے اور روحانیت کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے عوام میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دن رات پوری جانفشانی سے کام کرتا ہے، لیکن اس کو جو مزدوری ملتی ہے وہ بہت ہی معمولی ہے، جس سے روح و جسم کا رشتہ استوار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اب غور کیجیے ایک مزدور سارا دن موسم کی سختی برداشت کرتا ہے اور پورے دن کے کام کی اسے جومزدوری ملتی ہے اس سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست نہیں ہو سکتا ہے۔ پاکستانی آبادی کا ستر فیصد دیہات پر مشتمل ہے اور دیہات میں ایک دہاڑی دار کی دہاڑی چھ سو روپیہ ہے۔ اب کوئی اسحاق ڈار، معین قریشی، شوکت عزیز یا شوکت ترین اس مزدور کے باورچی خانے کا نہیں، بلکہ صرف چولہے کا بجٹ بنا کر دکھا دے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پر کوئی بات بھی نہیں کرتا ہے، نہ ہمارا سیاستدان ایسے مسائل کو اپنا ایجنڈا بناتا ہے نہ میڈیا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ خود مزدور بھی چپ ہے اور اس کے لب پر کوئی گلہ شکوہ بھی نہیں ہے۔ غریب نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ میرا مقدر یہی ہے کہ میں ایک محکوم ہوں اور محکوم ہی رہنا ہے۔ جب ہم خود ہی اپنے مسائل کو سامنے نہیں لائیں گے تو پھر دوسرا کوئی کیوں بات کرے گا؟ ان مسائل نے ہمارے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے ،جس سے چڑچڑا پن اور عدم برداشت جنم لیتی ہے اور کئی مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل اور مشکلات میں کمی کیسے لا سکتے ہیں؟ اس کے لئے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کو منافقت چھوڑ کر عوام کے حقیقی مسائل کو زیر غور اور زیر بحث لانا ہوگا۔ حکومتوں اور بیوروکریسی کو فرد کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا اور فرد کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ہوگا۔ بلدیاتی اداروں کو فعال بنا کر مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ عوام کو بااختیار بنانے کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ اس کے لئے ایک مضبوط بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیارات کی تقسیم نچلی سطح تک کرنا ہوگی۔ اس طرح فرد اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ تعلیم میں اصلاحات کرنا ہوں گی اور شرح خواندگی میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کرنا ہوگا۔ دیہات میں اصلاحاتی اور اصلاحی کمیٹیاں بنا کر عام آدمی کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ سیاستدانوں اور ان کے کارندوں کو سیاسی اختلافات میں شدت پسندی سے گریز کرنا ہو گا اور اپنے قومی مسائل کے حل کے لئے سر جوڑ کر سوچنا ہوگا۔ہماری قوم انتہائی جذباتی ہے اور ہم کسی مسئلے کا حل بھی جذبات میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ،جبکہ دنیا دماغ سے سوچ کر ترقی کی منازل بہت تیزی سے طے کر رہی ہے۔ ہم سائنس کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں کو ریسرچ کے جدید طریقوں پر عمل کرتے ہوئے ریسرچ کے کام کو بہت تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ عام آدمی کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ اپنے مسائل کا وہ خود ذمہ دار ہے،ایسے اپنی ذات سے نکل کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم مل کر ہی مضبوط ہو سکتے۔ ہم سب کو سیاسی، سماجی اور مذہبی رویوں میں اعتدال پسندی سے کام لینا چاہیے اور انتہاؤں پر جانے سے اجتناب برتنا چاہیے۔