حسین نواز کی شکایت
سابق وزیراعظم نواز شریف کے لندن میں طویل عرصے سے مقیم صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ انہیں بتایا گیا کہ ان کے والد کو رات کو سونے کے لئے بستر نہیں دیا گیااور والد کے لئے غسل خانہ انتہائی غلیظ تھاغسل خانے کی عرصہ دراز سے صفائی نہیں ہوئی تھی۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر انہوں نے اپنا پیغام جار ی کیا ہے انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں کی عزت کا کوئی دستور نہیں ہے حالانکہ یہ بنیادی حقوق ہیں جن کا روکنا تشدد ہے۔ حسین نواز درست کہتے ہیں اور چوں کہ والد کا معاملہ ہے تو انہیں تکلیف ہونا بھی چاہئے ۔ یہ تو شکر ہے کہ انہیں بھی لندن میں قیام کے باوجود یہ احساس ہوا کہ پاکستان میں جیلوں کی خراب صورت حال ہے۔ حسین نواز کو گوش گزار کرانا ضروری ہے کہ پاکستان میں جہاں ان کے والد تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں، ان کے والد کی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی پنجاب میں گزشتہ دس سال سے حکومت رہی ہے۔ ان کے چچا شہباز شریف وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، جیلوں اور سرکاری تعلیمی اداروں ، سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ہے وہ ناقابل بیان ہیں ۔ خود ان کے والد ماضی میں بھی جیل میں رہ چکے ہیں لیکن انہوں نے اتنا وقت ہی نہیں نکالا کہ جیلوں کی حالت درست کرا دیتے۔ حکمران طبقہ اور بڑے افسران کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ وقت انہیں بھی جیل کے حوالہ کر سکتا ہے۔ شائد ایسا اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں ان اداروں میں کمی کمین، اور غریب لوگ جاتے ہیں۔ رؤسا نہیں جاتے ہیں۔ رؤسا کا واسطہ تو جیل ہو یا دیگر سرکاری اداروں سے اسی وقت پڑتا ہے جب انہیں حالات کھینچ کر وہاں لے جاتے ہیں۔ کسے پتہ تھا کہ سابق وزیر اعظم ، ان کی صاحبزادی مریم یا فواد حسن فواد جیسے بڑے سرکاری افسران جیلوں کے مکیں ہو جائیں گے۔
حسین نواز کے چچا کو کس نے منع کیا تھا کی جیلوں کی حالت کو بہتر نہ کریں۔ ان کے والد جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہیں کس نے روکا تھا کہ جیلوں کی اصلاح نہ کریں اور جیلوں کو انسانوں کے رہنے جیسی جگہ میں تبدیل کریں ۔ ویسے سندھ میں بھی حکومت کو کس نے روکا تھا کہ جیلوں کی حالت بہتر نہ بنائیں حالانکہ مرحومہ بے نظیر اور آصف زرداری بھی جیلوں میں رہ چکے ہیں۔ شہباز شریف تو پنجاب بھر کو سنوار رہے تھے۔ بسیں اور ٹرینیں چلا رہے تھے ۔ درخت لگا رہے تھے ۔ دانش اسکول بنا رہے تھے ۔ سڑکیں چوڑی کرہے تھے۔ اربوں روپے کی ترقیاتی اسکیموں میں جیلوں کی اصلاحات اور جیلوں کو انسانوں کے رہنے کے گھروں جیسا بنانے کی کوئی اسکیم نہیں دی گئی۔ جیلوں کی تکلیف دہ حالت کی طرف ان کا ذہن اس لئے نہیں گیا ہوگا کہ جیلوں کی بہتر حالت کسے دکھانا ہے۔ وہ تو جیل کے اندر کی بات ہے جسے جیلوں کے مکینوں کو ہی بھگتنا ہوتا ہے۔ حسین نواز کو یقین کرنا چاہئے کہ ان کے والد جس حالت میں بھی جیل میں ہیں وہ بہت بہتر حالت میں ہیں۔
ایسا قیدیوں کے رشتہ داروں کے ساتھ کب ہوتا ہے کہ انہیں جیل کے سرکاری مقررہ وقت کے بعد بھی پورے خاندان کے ساتھ ملاقات کرائی جائے۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ تمام رشتہ داروں کو ایک ہی احاطے میں قائم مکانات میں رکھا جائے۔ نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور ان کے داماد صفدر ایسے ہی رکھے گئے ہیں کہ جب اور جس وقت چاہئیں آپس میں ملاقات کر سکتے ہیں۔ ان کے والد اور ہمشیرہ یا بہنوئی کو جو سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں وہ اس ملک میں صرف طبقہ اقتدار سے تعلق رکھنے والوں یا دولت مندوں کو ہی میسر ہوتی ہیں۔ ورنہ یہاں تو جیل عقوبت خانے ہیں۔ انسانوں کو سوائے اذیت دینے کے کچھ اور نہیں دیا جاتا ہے۔ ہر مجرم کے بارے میں جیل کے عملے کا ذہن بنا ہوا ہوتا ہے کہ یہ پیدائشی جرائم پیشہ ہے اسے اذیت دینا ہی اس کی ذمہ داری ہے۔ قیدیوں کو اس درجے تک اذیت دی جاتی ہے کہ وہ مجبور ہو کر جیل کے عملے سے سوال کرتے ہیں کہ ان کی جان خلاصی کا کیا معاوضہ ہوگا۔ مٹھی گرم ہوئی تو تیزا تیزی ختم ہو جاتی ہے۔ جیل تو بنیادی طور پر اصلاح گھر تصور کئے جاتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں ۔ ایسا ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانوں کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں جیل خانہ جات کے جو لوگ بھی وزیر ہوتے ہیں وہ شائد ہی کبھی جیلوں کا تفصیلی دورہ کر نے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں۔ جن لوگوں کو عمر بھر جیل میں رہنا چاہئے وہ جیل خانہ جات کے وزیر بن جاتے ہیں تو بھلا وہ کیوں جیلوں کا دورہ کریں۔ قیدیوں کو کس معیار کا کھانا دیا جاتا ہے۔ قیدیوں کے معمولات کیا ہوتے ہیں۔ انہیں کیا سہولتیں جو جیل قوانین میں درج ہیں ملنا چاہیں ، کیوں نہیں مل پاتی ہیں۔ اس کی ذمہ داری تو حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔
حسین نواز شکر کریں کہ ان کے والد اور ہمشیرہ کے ساتھ جیل میں داخلہ کے وقت وہ سلوک نہیں ہوا جو عام طور پر قیدی کے پہلی بار جیل میں داخلے کے وقت کیا جاتا ہے۔ عملے کا ہر شخص قیدی کو تھپڑ مارتا ہے۔ پھر اسے راہ داری میں دیوار کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس کے جوتے اتروائے جاتے ہیں۔ ان کی جیبوں میں موجود پیسوں اور دیگر سامان کو رکھوا لیا جاتا ہے۔ بعض کی رسید دی جاتی ہے اور بعض سامان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہم نے رکھ لیا۔ سندھ میں تو جیل افسران جس طرح قیدیوں کو اذیت دیتے ہیں اسی سبب بعض کے نام تو قہر الاہی پڑ گیا تھا ۔ حسین نواز نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ حیدرآباد کی جیل میں ایک ایسا افسر بھی آیا تھا جو کرسی پر ٹانگیں رکھ کر قیدیوں کو کہا کرتا تھا کہ اس کے جوتے کو اپنی زبان سے صاف کریں۔ وہ افسر قتل ( کسی اور وجہ سے) ہو چکا ہے، اس کی بد بختی کا عالم یہ تھا کہ قیدیوں کی ناک میں چونے کا پانی ڈالا کرتا تھا۔ حسین نواز کے والد نواز شریف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نے کبھی اس طرف توجہ کیوں نہیں دی۔
حسین نواز کے لئے البتہ یہ اچھی خبر ہے کہ کوئی بھی جماعت اس طرف توجہ نہیں دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں اول تو جیلوں کے بارے میں اصلاحات کا ذکر ہی نہیں ہوتا ہے، قیدیوں کی سہولتوں کے بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا جاتا ہے اور اگر منشور لکھنے والے کسی شخص کو خیال آ بھی جائے تو بس روا روی میں ایک آدھ جملہ لکھ دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی سیاسی جماعتوں کا یہ چلن بن گیا ہے کہ عام انتخابات کے وقت منشور جاری کرنے کی روایت ہے اس لئے وہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ منشور جاری کرنے والی جماعتیں حکومتوں کی مدت کے خاتمے کے بعد بھی منشور سامنے رکھ کر جائزہ نہیں لیتی ہیں کہ کیا برسر اقتدار جماعت نے منشور میں درج معاملات کے بارے میں کیا کارکردگی دکھائی، حکومت مخالف جماعتیں بھی حکمران جماعت اور اپنے منشور کو کھول کر نہیں دیکھتی ہیں کہ حکومت نے ان کے منشور میں دئے گئے کتنے نکات پر عمل کیا یا نہیں۔ حسین نواز کو کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ یہ بات سمجھنا چاہئے کہ اگر مسلم لیگ ن دوبارہ برسراقتدار آتی ہے تو اسے محروم اور نظر انداز کئے گئے طبقوں کے معاملات ، معمولات اور مسائل پر توجہ دینا چاہئے۔